شمائل ترمذی - حدیث 387

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، عَنِ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِهِ فَوَضَعَ فَمَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى سَاعِدَيْهِ، وَقَالَ: ((وَانَبِيَّاهُ، وَاصَفِيَّاهُ، وَاخَلِيلَاهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 387

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان ’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : یقیناً سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان پر داخل ہوئے اور اپنا لب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے درمیان رکھا، اور اپنے ہاتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائیوں پر رکھے، اور فرمایا: ہائے اللہ کے نبی، ہائے اللہ کے مخلص ترین ساتھی، ہائے اللہ کے مخلص ترین دوست۔‘‘
تشریح : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورہ کلمات بطور قلق واضطراب نہیں کہے، بلکہ آہستہ آواز سے کہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جزع و فزع اور قلق و اضطراب ممنوع ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ اگر نوحہ اور ندیہ نہ ہو تو میت کے اوصاف گننا منع نہیں ہے۔ والله اعلم۔
تخریج : یہ حدیث حسن ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۶؍۳۱،۲۲۰)، طبقات ابن سعد (۲؍۲۶۵)، مسند أبي یعلی ٰموصلی (۱؍۵۴ برقم ۴۴) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورہ کلمات بطور قلق واضطراب نہیں کہے، بلکہ آہستہ آواز سے کہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جزع و فزع اور قلق و اضطراب ممنوع ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ اگر نوحہ اور ندیہ نہ ہو تو میت کے اوصاف گننا منع نہیں ہے۔ والله اعلم۔