كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ الْمُلَيْكِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ قَالَ: ((مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ)) . ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان
’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کی جگہ بارے مختلف آراء پید اہو گئیں۔ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے جسے میں بھولا نہیں ( بلکہ اچھی طرح یاد ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’انبیاء کی وفات وہیں ہوتی ہیں جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ دفن کیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر تھا۔‘‘
تشریح :
عرب کے لوگ انبیاء علیہم السلام کی تجہیز و تکفین اور تدفین سے نابلد تھے کیونکہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بعد سر زمینِ عرب میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کو تقریباً چھ صدیاں ہو چکیں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درمیان یہ اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے۔ بعض روایات میں اس اختلاف کی تفصیلات بھی مذکور ہیں کہ بعض نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے وطن مالوف مکہ مکرمہ میں دفن کیا جائے کہ وہاں بیت اللہ الحرام بھی ہے، بعض نے کہا: بیت المقدس میں تدفین کی جائے کہ وہاں بہت سے انبیاء کی قبور ہیں، بعض نے مدینہ کے قبرستان بقیع میں تدفین کا مشورہ دیا۔ اسی دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کی جو باب میں مذکور ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر والی جگہ پر کی گئی جو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تھی۔
تخریج :
یہ حدیث اپنے دیگر طرق کے ساتھ صحیح ہے۔ شمائل ترمذی کی سند میں عبدالرحمان بن ابی بکر الملیکی ضعیف الحفظ ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الجنائز (۳؍۱۰۱۸)، سنن ابن ماجة، کتاب الجنائز (۱؍۱۶۲۸)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۸)، طبقات ابن سعد (۲؍۲۹۲، ۲۹۳) فتح الباري (۱؍۶۳۱)۔
عرب کے لوگ انبیاء علیہم السلام کی تجہیز و تکفین اور تدفین سے نابلد تھے کیونکہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بعد سر زمینِ عرب میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کو تقریباً چھ صدیاں ہو چکیں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درمیان یہ اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے۔ بعض روایات میں اس اختلاف کی تفصیلات بھی مذکور ہیں کہ بعض نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے وطن مالوف مکہ مکرمہ میں دفن کیا جائے کہ وہاں بیت اللہ الحرام بھی ہے، بعض نے کہا: بیت المقدس میں تدفین کی جائے کہ وہاں بہت سے انبیاء کی قبور ہیں، بعض نے مدینہ کے قبرستان بقیع میں تدفین کا مشورہ دیا۔ اسی دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث بیان کی جو باب میں مذکور ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر والی جگہ پر کی گئی جو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تھی۔