كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((لَا أَغْبِطُ أَحَدًا بَهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)) قال أبو عیسی: سالت أبا زرعة فقلت له من عبدالرحمن بن العلاء هذا؟ قال: هو عبدالرحمن بن علاء بن لجلاج
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کابیان
’’ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر شدتِ تکلیف کا مشاہدہ کرنے کے بعد کسی شخص کی موت کی آسانی پر رشک نہیں ہوا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے ابوزرعہ سے دریافت کیا کہ یہ عبدالرحمان بن علاء کون شخص ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ عبدالرحمن بن علاء بن لجلاج ہیں۔‘‘
تشریح :
یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ شدت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت میں نہیں تھی بلکہ شدت موت سے قبل آنے والے بخار اور بیماری کی تھی مثلاً بے ہوشی، اپنے آپ پر پانی ڈالنا، کثرتِ غش کا غالب آنا۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا موت سے قبل اگر کسی کو زیادہ تکلیف نہ ہوتی تو اس پر رشک نہ کرتیں، اور اس تکلیف کے نہ ہونے کو میت کے اعزاز و اکرام اور نیکی و صالحیت میں شمار نہ کرتیں۔
تخریج :
سنن ترمذي کی سند سے یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمان بن العلاء بن اللجلاج ہے جسے امام ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا۔ گویا یہ مجہول ہے لیکن سنن نسائي میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے اسی طرح صحیح بخاری میں بھی ہے دیکھیے: سنن ترمذي، أبواب الجنائز (۳؍۹۷۹)، سنن نسائي، کتاب الجنائز (۴؍۱۸۲۹)، صحیح البخاري، کتاب المغازي (۷؍۴۴۴۶)
یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ شدت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت میں نہیں تھی بلکہ شدت موت سے قبل آنے والے بخار اور بیماری کی تھی مثلاً بے ہوشی، اپنے آپ پر پانی ڈالنا، کثرتِ غش کا غالب آنا۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا موت سے قبل اگر کسی کو زیادہ تکلیف نہ ہوتی تو اس پر رشک نہ کرتیں، اور اس تکلیف کے نہ ہونے کو میت کے اعزاز و اکرام اور نیکی و صالحیت میں شمار نہ کرتیں۔