شمائل ترمذی - حدیث 371

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يَخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارَيِهِ إِبِطُ بِلَالٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 371

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا، اور مجھے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جتنی تکلیفیں دی گئیں اتنی کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ مجھ پر تیس تیس دن رات ایسے گذرے کہ میرے اور بلال کے پاس اتنا کھانا نہ ہوتا جو کوئی جاندار کھا سکے بجز اس تھوڑے سے کھانے کے، جو بلال کی بغل میں چھپا ہوا ہوتا تھا۔‘‘
تشریح : ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تبلیغِ اسلام شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ممکن طریقے سے ڈرایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل تک کی سازشیں کی گئیں اور معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید دینے سے باز نہ آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور خود بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ اور وہاں کی ابتدائی زندگی بھی نہایت تنگدستی اور صعوبت کی تھی بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے جب فتوحات کا دروازہ کھولا تو آسانیاں پیدا ہو گئیں ﴿إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ ٭ حدیث الباب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی الله عنہم کے گذر و بسر کی حالت واضح ہو رہی ہے۔ کہ کئی کئی دن تک کھانے کی کوئی شیء میسر نہ ہوتی تھی۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب صفة القیامة والرقائق والورع (۴؍۲۴۷۲)، سنن ابن ماجة، المقدمه (۱؍۱۱۵)، صحیح ابن حبان (۸؍۱۸۲) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تبلیغِ اسلام شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ممکن طریقے سے ڈرایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل تک کی سازشیں کی گئیں اور معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید دینے سے باز نہ آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور خود بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ اور وہاں کی ابتدائی زندگی بھی نہایت تنگدستی اور صعوبت کی تھی بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے جب فتوحات کا دروازہ کھولا تو آسانیاں پیدا ہو گئیں ﴿إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ ٭ حدیث الباب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی الله عنہم کے گذر و بسر کی حالت واضح ہو رہی ہے۔ کہ کئی کئی دن تک کھانے کی کوئی شیء میسر نہ ہوتی تھی۔