شمائل ترمذی - حدیث 370

كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عِيسَى أَبُو نَعَامَةَ الْعَدَوِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ عُمَيْرٍ، وَشُوَيْسًا أَبَا الرَّقَادِ، قَالَا: بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُتْبَةَ بْنَ غَزْوَانَ وَقَالَ: انْطَلِقْ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ، حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي أَقْصَى بِلَادِ الْعَرَبِ، وَأَدْنَى بِلَادِ الْعَجَمِ فَأَقْبِلُوا، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْمِرْبَدِ وَجَدُوا هَذَا الْكِذَّانَ، فَقَالُوا: مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: هَذِهِ الْبَصْرَةُ فَسَارُوا حَتَّى إِذَا بَلَغُوا حِيَالَ الْجِسْرِ الصَّغِيرِ، فَقَالُوا: هَهُنَا أُمِرْتُمْ، فَنَزَلُوا - فَذَكَرُوا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ - قَالَ: فَقَالَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ: ((لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَسَابِعُ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ إِلَا وَرَقَ الشَّجَرِ حَتَّى تَقَرَّحَتْ أَشْدَاقُنَا، فَالْتَقَطْتُ بُرْدَةً قَسَمْتُهَا بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدٍ، فَمَا مِنَّا مِنْ أَولَئِكَ السَّبْعَةِ أَحَدٌ إِلَّا وَهُوَ أَمِيرُ مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ وَسَتُجَرِّبُونَ الْأُمَرَاءَ بَعْدَنَا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 370

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان ’’ابو نعامہ عدوی کہتے ہیں کہ میں نے خالد بن عمیر اور ابو الرقاد شویس سے سنا، وہ فرما تے تھے کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کو (ایک لشکر پر امیر مقرر کر کے) بھیجا اور فرمایا: ’’تم اور تمہارے ساتھی سر زمین عرب کی انتہا اور سر زمین عجم کے قریب تک جاؤ (جب وہاں پہنچو) تو وہاں قیام کرنا، یہ تمام لوگ وہاں پہنچے، جب مقام مربد میں پہنچے تو وہاں انہوں نے سنگ مرمر پایا تو پوچھا یہ کونسی جگہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ بصرہ ہے، تو وہ اور چلتے گئے حتیٰ کہ (دجلہ کے) چھوٹے پل کے پاس پہنچ گئے تو کہنے لگے: اسی مقام پر تمہیں پڑاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ انہوں نے وہیں پڑاؤ کیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی۔ راوی کہتا ہے: پھر عتبۃ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں خود کو دیکھتا ہوں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتواں شخص تھا، ہمارا کھانا صرف درختوں کے پتے تھے جن کے کھانے سے ہمارے جبڑے پھٹ گئے تھے۔ مجھے گری ہوئی ایک چادر ملی جس کو میں نے اپنے اور سعد کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر لیا۔ اب ہم ان ساتوں میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی علاقے کا (امیر) گورنر بن گیا ہے، اور تم عنقریب ہمارے بعد آنے والے امراء کا تجربہ کر لو گے۔‘‘
تشریح : جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا کہ یزد جرد نے عجم سے فوجی امداد منگوائی ہے اور وہ عرب پر بصرہ کے راستے حملہ آور ہونا چاہتی ہے تو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تین سو مجاہدینِ اسلام کا ایک لشکر سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت روانہ فرمایا اور حکم دیا....پھر راویوں نے تمام واقعہ مفصل طور پر بیان کیا۔ چونکہ وہ واقعات اس باب سے متعلق نہیں اس لیے امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان کو چھوڑ دیا اور اصل مقصود بیان فرما دیا کہ ہم پر تنگ دستی اور تکلیف و مصائب کے وہ دور بھی آئے کہ ہم درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور آج یہ عالم ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی علاقے کا حاکم اور سربراہ ہے اور عنقریب تم ہمارے بعد کے حکام کو آزما کر دیکھو گے کہ وہ ہماری طرح نہ ہونگے یعنی جو عدالت و امانت اور زہد و قناعت ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے وہ ان حکام میں نہیں ہوگا۔ اور یہ بات تجربہ نے ثابت کر دی کہ ایسا ہی ہوا۔
تخریج : یہ روایت مذکورہ قصہ کے ساتھ ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ابو نعامہ عمرو بن عیسی ثقہ راوی تھے لیکن بعد میں مختلط ہو گئے البتہ سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کا یہ اصل خطبہ صحیح مسلم میں مروی ہے ضعف صرف امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے بھیجنے کے واقعہ میں ہے۔ والله اعلم۔ دیکھیے: مسند احمد بن حنبل (۴؍۱۷۴)، و (۵؍۶۱)، سنن ابن ماجة، کتاب الزهد (۲؍۴۱۵۶) مختصراً، صحیح مسلم، کتاب الزهد و الرقائق (۴؍۱۴ برقم ۲۲۷۸، ۲۲۷۹) جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا کہ یزد جرد نے عجم سے فوجی امداد منگوائی ہے اور وہ عرب پر بصرہ کے راستے حملہ آور ہونا چاہتی ہے تو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تین سو مجاہدینِ اسلام کا ایک لشکر سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت روانہ فرمایا اور حکم دیا....پھر راویوں نے تمام واقعہ مفصل طور پر بیان کیا۔ چونکہ وہ واقعات اس باب سے متعلق نہیں اس لیے امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان کو چھوڑ دیا اور اصل مقصود بیان فرما دیا کہ ہم پر تنگ دستی اور تکلیف و مصائب کے وہ دور بھی آئے کہ ہم درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور آج یہ عالم ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی علاقے کا حاکم اور سربراہ ہے اور عنقریب تم ہمارے بعد کے حکام کو آزما کر دیکھو گے کہ وہ ہماری طرح نہ ہونگے یعنی جو عدالت و امانت اور زہد و قناعت ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے وہ ان حکام میں نہیں ہوگا۔ اور یہ بات تجربہ نے ثابت کر دی کہ ایسا ہی ہوا۔