كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بَيَانِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ: ((إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ أَهْرَاقَ دَمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَغْزُو فِي الْعِصَابَةِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامِ مَا نَأْكُلُ إِلَّا وَرَقَ الشَّجَرِ وَالْحُبْلَةِ حَتَّى تَقَرَّحَتْ أَشْدَاقُنَا، وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ وَالْبَعِيرُ، وَأَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يَعْزُرُونِي فِي الدِّينِ. لَقَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان
’’قیس بن ابو حازم فرماتے ہیں میں نے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: بلا شبہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کے راستے میں خون بہایا، اور پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا، میں خود کو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جماعت میں جہاد کرتا ہوا دیکھ رہا ہوں، ہم جھاڑیوں کے پھل اور کیکر کے پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے جبڑے زخمی ہو جاتے، اور ہمارا ہر فرد بکری اور اونٹ کی طرح مینگنیاں کرتا تھا۔ اب بنو اسد دین کے بارے میں مجھ پر طعن کرتے ہیں (اگر یہ سچ ہے تو) تب تو میں خائب و خاسر ہوا! اور میرے تمام اعمال ضائع ہو گئے (مگر ایسے ہرگز نہیں ہو سکتا)۔‘‘
تشریح :
٭ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تو حسبِ عادت اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی سازشیں کیں، انکی جملہ شکایات میں سے ایک شکایت یہ تھی کہ وہ نماز درست نہیں پڑھاتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کر کے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ان کی جگہ مقرر کر دیا پھر سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلوا کر فرمایا: ’’اے ابو اسحاق! (یہ ان کی کنیت ہے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نماز درست نہیں پڑھاتے۔‘‘ ابو اسحاق نے جواباً کہا : ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! میں تو انکی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز کے ساتھ کروایا کرتا تھا۔ اس نماز میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا تھا۔ میں انہیں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں طویل قرأت کرتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا۔‘‘ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ کوفہ کی جانب ایک آدمی یا کچھ آدمی روانہ کیے۔ انہوں نے جا کر اہل کوفہ سے ایک ایک مسجد میں ان کے متعلق استفسار کیا گیا، تو لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ یہاں تک کہ وہ مسجدِ بنی عبس میں آئے، تو یہاں اسامہ بن قتادۃ نامی شخص، جس کی کنیت ابو سعدہ تھی، نے کہا: ’’جب آپ ہم سے پوچھ ہی رہے ہیں، تو بات یہ ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ فوجی دستے کے ساتھ نہیں جاتے، تقسیم میں مساوات کا خیال نہیں رکھتے، اور فیصلہ میں انصاف نہیں کرتے۔‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لیکن میں تو اللہ تعالیٰ کی قسم! ضرور تین دعائیں کروں گا! اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے اور ریا اور دکھلاوے کے لیے کھڑا ہوا ہے، تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کے افلاس کو طویل کر دے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کر دے۔‘‘ اس کے بعد جب کبھی اس شخص سے اس کا حال پوچھا جاتا تو وہ کہتا: فتنہ میں مبتلا بوڑھاہوں، مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ چکی ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأذان، باب وجوب القرائة للأمام والمأموم، حدیث:۷۵۵۔)
یہ وہ واقعہ ہے جس کی بنا پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وہ ارشاد فرمایا جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’شمائل ‘‘میں درج کیا ہے۔
٭ ’’میں پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا‘‘ یہ بھی ایک واقعہ ہے جوابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ ’’ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضی الله عنہم انتہائی پوشیدہ طور پر گھاٹیوں میں چھپ چھپا کر نماز پڑھا کرتے تھے ایک دفعہ مسلمانوں کی ایک جماعت مکہ کی ایک گھاٹی میں مصروف عبادت تھی کہ ان پر مشرکین نے اچانک حملہ کر دیا۔ سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے قریب ہی اونٹ کا ایک جبڑا پڑا ہوا تھا۔انہوں نے یہی اٹھا کر ان پر ہلہ بول دیا، اور سات مشرکوں کے سر پھوڑ دیے۔‘‘ (سیرة ابن هشام (ص:۱۲۰)۔)سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
٭ ’’میں پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر چلایا۔‘‘ اکثر اہل السیر والمغازی بیان کرتے ہیں کہ دورِ اسلام میں لڑی جانے والی سب سے پہلی جنگ ’’ابواء‘‘ ہے۔ یہ مدینہ منورہ آنے سے بارہویں ماہ کے آخر میں پیش آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال قریش کے کسی قافلے پر حملہ کرنے کا تھا۔ ابن عائذ نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’ابواء‘‘ پہنچے تو عبیدہ بن الحارث کو ایک لشکر دے کر بھیجا اور اس کو ایک سفید جھنڈا بھی دیا، یہ پہلا جھنڈا تھا جو اسلام میں باندھا گیا۔ یہ لشکر مہاجرین کے ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ جب قریب کے قافلے سے مڈ بھیڑ ہوئی تو ابو سفیان، جو قافلۂ قریش کا امیر تھا۔ نے تیر اندازی کا حکم دیا۔ اس دوران سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے سیّدناسعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ نے تیر چلائے۔( سبل الهدی والرشاد (۴؍۱۰)، روض الأنف (۳؍۳۱)۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابواء میں جنگ (قتل و غارت) نہیں ہوئی۔ جبکہ علی القاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جنگ (قتل و غارت) کا نہ ہونا رمیٔ سعد رضی اللہ عنہ کے منافی نہیں ہے۔
حدیث الباب میں سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
٭ ’’میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ صحابہ کی جماعت......‘‘ ایسا واقعہ ۸ھ ’’غزوۂ خبط‘‘ میں پیش آیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی زیرِ امارت تین سو مہاجرین و انصار کو مدینہ منورہ سے پانچ دن کی مسافت پر سمندر کے کنارے قبیلۂ جہینہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجاہدین کو توشے کا ایک ایک تھیلا دیا تھا، جس میں سے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ان کو ایک ایک چلو دیتے تھے پھر اس سے بھی کم کر دیا یہاں تک کہ ایک کھجور دیتے، جب یہ کھجوریں بھی ختم ہو گئیں تو درختوں کے پتے اور جھاڑیوں کے پھل کھانے تک نوبت پہنچی۔ اس طرح کی سخت غذا سے ان کے جبڑے پھٹ گئے۔ پھراللہ تعالیٰ کی طرف ان کے ہاتھ ایک بہت بڑی مچھلی لگی جسے وہ مہینہ بھر یا نصف ماہ تک کھاتے رہے۔ اس مچھلی کی ایک پسلی رکھی گئی جس کے نیچے سے ایک اونٹ مع اپنے سوار کے گذر سکتا تھا اس مچھلی کو ’’عنبر‘‘ کہتے ہیں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی اس لشکر میں موجود تھے۔ بعض نے کہا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی مراد وہ غزوہ ہے جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جنگ کرتے اور ہمارا کھانا صرف حبلہ درخت کے پتے ہوتے۔( صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلون، حدیث:۵۴۱۲۔)
حدیث الباب میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اشارہ اسی طرف ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز حدیث الباب کا ترجمہ الباب بھی یہی ٹکڑا ہے۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب سعد بن أبي وقاص (۷؍ ۳۷۲۸)، وکتاب الأطعمة (۹؍۵۴۱۲)، وکتاب الرقاق (۱۱؍۶۴۵۳)، صحیح مسلم، کتاب الزهد (۴؍۲۳۶۵)
٭ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تو حسبِ عادت اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی سازشیں کیں، انکی جملہ شکایات میں سے ایک شکایت یہ تھی کہ وہ نماز درست نہیں پڑھاتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کر کے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ان کی جگہ مقرر کر دیا پھر سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلوا کر فرمایا: ’’اے ابو اسحاق! (یہ ان کی کنیت ہے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نماز درست نہیں پڑھاتے۔‘‘ ابو اسحاق نے جواباً کہا : ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! میں تو انکی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز کے ساتھ کروایا کرتا تھا۔ اس نماز میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا تھا۔ میں انہیں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں طویل قرأت کرتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا۔‘‘ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ کوفہ کی جانب ایک آدمی یا کچھ آدمی روانہ کیے۔ انہوں نے جا کر اہل کوفہ سے ایک ایک مسجد میں ان کے متعلق استفسار کیا گیا، تو لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ یہاں تک کہ وہ مسجدِ بنی عبس میں آئے، تو یہاں اسامہ بن قتادۃ نامی شخص، جس کی کنیت ابو سعدہ تھی، نے کہا: ’’جب آپ ہم سے پوچھ ہی رہے ہیں، تو بات یہ ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ فوجی دستے کے ساتھ نہیں جاتے، تقسیم میں مساوات کا خیال نہیں رکھتے، اور فیصلہ میں انصاف نہیں کرتے۔‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لیکن میں تو اللہ تعالیٰ کی قسم! ضرور تین دعائیں کروں گا! اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے اور ریا اور دکھلاوے کے لیے کھڑا ہوا ہے، تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کے افلاس کو طویل کر دے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کر دے۔‘‘ اس کے بعد جب کبھی اس شخص سے اس کا حال پوچھا جاتا تو وہ کہتا: فتنہ میں مبتلا بوڑھاہوں، مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ چکی ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأذان، باب وجوب القرائة للأمام والمأموم، حدیث:۷۵۵۔)
یہ وہ واقعہ ہے جس کی بنا پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وہ ارشاد فرمایا جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’شمائل ‘‘میں درج کیا ہے۔
٭ ’’میں پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا‘‘ یہ بھی ایک واقعہ ہے جوابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ ’’ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضی الله عنہم انتہائی پوشیدہ طور پر گھاٹیوں میں چھپ چھپا کر نماز پڑھا کرتے تھے ایک دفعہ مسلمانوں کی ایک جماعت مکہ کی ایک گھاٹی میں مصروف عبادت تھی کہ ان پر مشرکین نے اچانک حملہ کر دیا۔ سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے قریب ہی اونٹ کا ایک جبڑا پڑا ہوا تھا۔انہوں نے یہی اٹھا کر ان پر ہلہ بول دیا، اور سات مشرکوں کے سر پھوڑ دیے۔‘‘ (سیرة ابن هشام (ص:۱۲۰)۔)سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
٭ ’’میں پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر چلایا۔‘‘ اکثر اہل السیر والمغازی بیان کرتے ہیں کہ دورِ اسلام میں لڑی جانے والی سب سے پہلی جنگ ’’ابواء‘‘ ہے۔ یہ مدینہ منورہ آنے سے بارہویں ماہ کے آخر میں پیش آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال قریش کے کسی قافلے پر حملہ کرنے کا تھا۔ ابن عائذ نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’ابواء‘‘ پہنچے تو عبیدہ بن الحارث کو ایک لشکر دے کر بھیجا اور اس کو ایک سفید جھنڈا بھی دیا، یہ پہلا جھنڈا تھا جو اسلام میں باندھا گیا۔ یہ لشکر مہاجرین کے ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ جب قریب کے قافلے سے مڈ بھیڑ ہوئی تو ابو سفیان، جو قافلۂ قریش کا امیر تھا۔ نے تیر اندازی کا حکم دیا۔ اس دوران سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے سیّدناسعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ نے تیر چلائے۔( سبل الهدی والرشاد (۴؍۱۰)، روض الأنف (۳؍۳۱)۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابواء میں جنگ (قتل و غارت) نہیں ہوئی۔ جبکہ علی القاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جنگ (قتل و غارت) کا نہ ہونا رمیٔ سعد رضی اللہ عنہ کے منافی نہیں ہے۔
حدیث الباب میں سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
٭ ’’میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ صحابہ کی جماعت......‘‘ ایسا واقعہ ۸ھ ’’غزوۂ خبط‘‘ میں پیش آیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی زیرِ امارت تین سو مہاجرین و انصار کو مدینہ منورہ سے پانچ دن کی مسافت پر سمندر کے کنارے قبیلۂ جہینہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجاہدین کو توشے کا ایک ایک تھیلا دیا تھا، جس میں سے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ان کو ایک ایک چلو دیتے تھے پھر اس سے بھی کم کر دیا یہاں تک کہ ایک کھجور دیتے، جب یہ کھجوریں بھی ختم ہو گئیں تو درختوں کے پتے اور جھاڑیوں کے پھل کھانے تک نوبت پہنچی۔ اس طرح کی سخت غذا سے ان کے جبڑے پھٹ گئے۔ پھراللہ تعالیٰ کی طرف ان کے ہاتھ ایک بہت بڑی مچھلی لگی جسے وہ مہینہ بھر یا نصف ماہ تک کھاتے رہے۔ اس مچھلی کی ایک پسلی رکھی گئی جس کے نیچے سے ایک اونٹ مع اپنے سوار کے گذر سکتا تھا اس مچھلی کو ’’عنبر‘‘ کہتے ہیں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی اس لشکر میں موجود تھے۔ بعض نے کہا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی مراد وہ غزوہ ہے جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جنگ کرتے اور ہمارا کھانا صرف حبلہ درخت کے پتے ہوتے۔( صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلون، حدیث:۵۴۱۲۔)
حدیث الباب میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا اشارہ اسی طرف ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز حدیث الباب کا ترجمہ الباب بھی یہی ٹکڑا ہے۔