كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: ((مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟)) قَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ، وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ فَقَالَ: ((مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟)) قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ)) فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتِ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟)) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ. فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنِ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ)) . فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ)) ، فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا، فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَكَلُوا، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟)) قَالَ: لَا. قَالَ: ((فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا)) . فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اخْتَرْ مِنْهُمَا)) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اخْتَرْ لِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ، خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا)) . فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ حَقَّ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِأَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان
’’فقیہِ امت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے جس وقت آپ کہیں نہیں نکلتے تھے اور نہ آپ کو کوئی شخص اس وقت ملتا تھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ابوبکر! تجھے کونسی چیز یہاں لے آئی ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے، آپ کا چہرہ مبارک دیکھنے اور آپ کو سلام کہنے نکلا ہوں۔ ابھی زیادہ دیر نہ ٹھہرے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ’’عمر تمہیں کونسی چیز لے آئی ہے؟‘‘ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بھوک نکال لائی ہے۔ فرمایا: بھوک تو میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔‘‘ پھر تینوں ہی ابو الہیثم بن تیہان الانصاری کے گھر کی طرف چلے گئے۔ ابو الہیثم کا کھجوروں کا باغ اور بہت سی بکریاں تھیں مگر ان کے پاس کوئی خادم نہ تھا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو) ابو الہیثم گھر میں موجود نہیں تھا۔ آپ نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ ’’تمہارا خاوند کہاں ہے؟ ‘‘ تو وہ کہنے لگی: ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ابو الہیثم پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے آگئے اور مشکیزہ رکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لے کر باغ میں چلے گئے۔ وہاں اس نے ان کے لیے ایک چٹائی بچھا دی اور خود کھجور کے ایک درخت کی طرف گئے تو وہاں سے ایک خوشہ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ان میں تر کھجوریں اتار کر کیوں نہیں لائے ہو؟ پورا خوشہ لے آئے ہو؟ ‘‘تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ آپ اپنی پسند کی تراور ڈوڈی کھجوریں بھی کھا لیں۔ چنانچہ ان تینوں نے کھجوریں کھائیں اور مشکیزہ سے پانی پیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا،ٹھنڈے سائے، تر اور پاک عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔‘‘ ابوالہیثم ان کے لیے کھانا تیار کرنے کو جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا‘‘ تو اس نے ان کے لیے سال سے کم عمر کی بھیڑ، یا بکری ذبح کی اور (تیار کر کے) ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ نے تناول فرما کر ارشاد فرمایا: تمہارے پاس کوئی خادم ہے؟ ’’عرض کیا نہیں، فرمایا ’’جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو آنا۔‘‘ بعد ازاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن سے زائد ایک بھی نہ تھا۔ تو سیدنا ابو الہیثم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ان میں ایک کو پسند کر لو‘‘ تو انہوں نے کہا: آپ خود ہی میرے لیے پسند فرمائیں، فرمایا: ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ اسے پکڑ لو، کیونکہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔‘‘ ابو الہیثم رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے پاس جا کر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد، کہ ’’اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا‘‘ کی خبر دی تو وہ کہنے لگی : تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو تب ہی پورا کر سکتے ہو جب کہ تم اسے آزاد کر دو۔ وہ فرمانے لگے: یہ آزاد ہے۔ (جب اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا اور نہ ہی کوئی خلیفہ مقرر کیا ہے مگر اس کے دو قابل اعتماد دوست ہوتے ہیں۔ ایک دوست اسے نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا دوست اس کے نقصان میں کمی نہیں کرتا، جو برے دوست سے بچ گیا وہ یقیناً شر سے بچ گیا۔‘‘
تشریح :
کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے واقعات متعدد بار رونما ہوئے (جو اپنے مضمون میں قریباً وہی تفصیلات لیے ہوئے ہیں جو امام ترمذی رحمہ اللہ کی اس روایت میں ہیں۔)
٭ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تو انہیں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہماملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں اس وقت اپنے گھروں سے کیا چیز نکال لائی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: بھوک۔ فرمایا: ’’قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے بھی یہی چیز نکال لائی ہے...‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیره إلی دار...، حدیث:۲۰۳۸۔)
٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بھوک سے تھے جبکہ گھر میں سے کھانے کے لیے کچھ نہ ملا، ادھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی صبح سے بھوک لگی ہوئی تھی، انہوں سے اپنے گھر سے کھانا مانگا تو کچھ نہ ملا، کہنے لگے: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا ہوں شاید وہاں سے کوئی چیز مل جائے، وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حالت دیکھ کر کہا: ابو بکر بھوک سے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ اتنی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے...‘‘
٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نظر آئے، عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کس چیز نے اس وقت گھر سے نکالا ہے تو فرمایا: بھوک نے‘‘ عرض کیا: مجھے بھی یہاں بھوک لے آئی ہے۔ قسم ہے اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آگئے ....الخ‘‘ ...( مسند أبي یعلی (۲۳۴)۔ مسند البزار (البحر الزخار:۲۱۳) عن ابن عباس رضی الله عنهما ۔)
مگر یہ فقیری اور تنگ دستی اس لیے ہوتی ہے کہ ان اصحاب کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، وہ اپنے سے زیادہ ضرورت مند حضرات کو دے دیتے تھے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ جو کچھ گھر میں ہوتا، تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے، یہ ایثار اور ہمدردی کے وہ نادر نمونے ہیں جو پہلے نبیوں کے اصحاب میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان نفوسِ قدسیہ و طیبہ کے بعد کہیں ملتے ہیں۔ ان اصحاب کو یہ تربیت سید الفقراء جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، جن کی حالت اپنی اختیاری فقیری میں یہ تھی کہ کئی کئی دن بلکہ کئی کئی مہینے گھر میں آگ نہ جلائی جاتی کہ کوئی ایسی چیز ہی میسر نہیں جو آگ پر پکائی جائے۔ کما مر۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے یہ بات بتائی کہ اگر چاہو تو میں مکہ کے ریگستان کو سونا بنا دوں ؟ تو میں نے عرض کی: ((لَا یَا رَبِّ أَشْبَعُ یَوْمًا وَأَجُوْعُ یَوْمًا فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَیْكَ وَذَکَرْتُكَ وَإِذَا شَبِعْتُ شَکَرْتُكَ وَحَمَدْتُكَ)) (سنن ترمذي، کتاب الزهد، باب ما جاء في الکفاف والصبر علیه۔)(نہیں، اے رب! بلکہ میں ایک دن سیر ہونا اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں کہ جب بھوکا ہوں گا تو تیری طرف آہ و زاری کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو تیرا شکریہ اور حمد بیان کروں گا۔
امام طبرانی نے بسند حسن روایت کیا ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کوہِ صفا پر تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جبرئیل! قسم ہے اس کی جس نے تجھے حق دے کر میرے پا س بھیجا ہے کہ آل محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ایک مٹھی یا ایک لپ ستو بھی نہیں ‘‘ یہ کلام ابھی پورا بھی نہ ہوا کہ آسمان سے ایک نہایت خوفناک آواز آئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت تو نہیں آگئی؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا: نہیں، یہ اسرافیل آرہے ہیں جو آپ کا کلام سن کر آپ کے پاس آرہے ہیں۔ اسرافیل پہنچے تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات سن کر مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے کر بھیجاہے کہ میں آپ کے ساتھ تہامہ کے پہاڑ سونے، چاندی اور زمرد و یاقوت کے بنا کر چلا دیتا ہوں۔ آپ کی پسند ہے چاہے بادشاہ نبی بنو یا بندے نبی؟ تو جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ کے لیے تواضع اختیار کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اللہ کا نبی اور بندہ بننا پسند کروں گا۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني (۷۱۳۱)۔)اس سے ثابت ہوا کہ غنی شکر گزار سے فقیر صبر کرنے والا بہتر ہے۔ نیز ثابت ہوا کہ اگر اپنی غریبی و مسکنت بطور جزع و فزع کے اظہار سے نہ کہے تو توکل اور زہد کے منافی نہیں ہے۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت تک جو کی روٹی سے سیر نہ ہوئے تھے، (صحیح بخاري، کتاب الاطعمة، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلو، حدیث:۵۴۱۴۔)اور جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لوہے کی زرہ کچھ جَو کے عوض ایک یہودی کے پاس رہن تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال کے لیے قرض لیا تھا۔(صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۷)، حدیث:۴۴۶۷۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فوراً تقسیم کر دیتے، اور اللہ کے راستے میں فقراء و مساکین کودے دیتے، یہی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں صدیق و فاروق رضی اللہ عنہماکا تھا۔
اس لمبی حدیث سے دیگر مندرجہ ذیل مسائل بھی اخذ ہوتے ہیں۔
٭ سیر ہو کر کھانا درست ہے مگر اتنا جتنا ثابت ہے کہ پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانا، ایک تہائی پینا، اور ایک تہائی حصہ سانس کے لیے خالی چھوڑا جائے۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھوک سے مستغنی اور مستثنیٰ نہیں تھے بلکہ انسان ہونے کے ناطے کھانے اور پینے کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
٭ دوست اور ساتھی کے گھر بلا اطلاع اور بغیر پروگرام کے جایا جا سکتا ہے اور وہاں سے دعوت کھانا درست ہے۔
٭ مشورہ جب طلب کیا جائے تو پوری دیانتداری سے دیا جائے۔
٭ نمازی کو بے نمازی پر ترجیح دی جائے۔
٭ احسان کا بدلہ احسان سے دیا جائے اگر موقع پر موجود نہ ہو تو وعدہ کر لیا جائے یا کسی دوسرے موقع پر دیا جائے۔
٭ نیکو کار لوگوں کو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے نیک سیرت عورت کا انتخاب کرنا چاہیے جو نیکی کے راہ میں معاون اور ممد ہو۔
٭ ’’بطانہ‘‘ دلی دوست جب اچھائی اور نیکی کا کام کہے تو اسے رد نہیں کرنا چاہیے۔ وغیر ذلک۔
٭ مالدار شخص کا گھر والوں کی خدمت اور ان کے حوائج ضروریہ کو پورا کرنے کے لیے خود مشقت والا کام کرنا بزرگی اور بڑائی کے منافی نہیں۔
٭ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کا مال ’’مالِ غیر دلِ بے رحم‘‘ کی طرح خرچ نہیں کروانا چاہیے بلکہ ان سے ہمدردی اور شفقت کرنی چاہیے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو! ہمارے لیے کوئی دودھ والا جانور ذبح نہ کرنا۔‘‘
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الزهد (۳؍۲۳۷۰) وقال حدیث ’’حسن صحیح غریب‘‘ الأدب المفرد للبخاري(۱؍۲۵۶) من أول قوله لأبي الهیثم ’’ وَهَلْ لَكَ مِنْ خَادِمٍ ‘‘ إلی آخره، سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في المشورة، مستدرك حاکم (۴؍۱۴۱)، شعب الإیمان (۴؍۴۶۰۴)
کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے واقعات متعدد بار رونما ہوئے (جو اپنے مضمون میں قریباً وہی تفصیلات لیے ہوئے ہیں جو امام ترمذی رحمہ اللہ کی اس روایت میں ہیں۔)
٭ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تو انہیں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہماملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں اس وقت اپنے گھروں سے کیا چیز نکال لائی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: بھوک۔ فرمایا: ’’قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے بھی یہی چیز نکال لائی ہے...‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیره إلی دار...، حدیث:۲۰۳۸۔)
٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بھوک سے تھے جبکہ گھر میں سے کھانے کے لیے کچھ نہ ملا، ادھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی صبح سے بھوک لگی ہوئی تھی، انہوں سے اپنے گھر سے کھانا مانگا تو کچھ نہ ملا، کہنے لگے: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا ہوں شاید وہاں سے کوئی چیز مل جائے، وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حالت دیکھ کر کہا: ابو بکر بھوک سے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ اتنی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے...‘‘
٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نظر آئے، عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کس چیز نے اس وقت گھر سے نکالا ہے تو فرمایا: بھوک نے‘‘ عرض کیا: مجھے بھی یہاں بھوک لے آئی ہے۔ قسم ہے اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آگئے ....الخ‘‘ ...( مسند أبي یعلی (۲۳۴)۔ مسند البزار (البحر الزخار:۲۱۳) عن ابن عباس رضی الله عنهما ۔)
مگر یہ فقیری اور تنگ دستی اس لیے ہوتی ہے کہ ان اصحاب کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، وہ اپنے سے زیادہ ضرورت مند حضرات کو دے دیتے تھے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ جو کچھ گھر میں ہوتا، تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے، یہ ایثار اور ہمدردی کے وہ نادر نمونے ہیں جو پہلے نبیوں کے اصحاب میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان نفوسِ قدسیہ و طیبہ کے بعد کہیں ملتے ہیں۔ ان اصحاب کو یہ تربیت سید الفقراء جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، جن کی حالت اپنی اختیاری فقیری میں یہ تھی کہ کئی کئی دن بلکہ کئی کئی مہینے گھر میں آگ نہ جلائی جاتی کہ کوئی ایسی چیز ہی میسر نہیں جو آگ پر پکائی جائے۔ کما مر۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے یہ بات بتائی کہ اگر چاہو تو میں مکہ کے ریگستان کو سونا بنا دوں ؟ تو میں نے عرض کی: ((لَا یَا رَبِّ أَشْبَعُ یَوْمًا وَأَجُوْعُ یَوْمًا فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَیْكَ وَذَکَرْتُكَ وَإِذَا شَبِعْتُ شَکَرْتُكَ وَحَمَدْتُكَ)) (سنن ترمذي، کتاب الزهد، باب ما جاء في الکفاف والصبر علیه۔)(نہیں، اے رب! بلکہ میں ایک دن سیر ہونا اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں کہ جب بھوکا ہوں گا تو تیری طرف آہ و زاری کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو تیرا شکریہ اور حمد بیان کروں گا۔
امام طبرانی نے بسند حسن روایت کیا ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کوہِ صفا پر تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جبرئیل! قسم ہے اس کی جس نے تجھے حق دے کر میرے پا س بھیجا ہے کہ آل محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ایک مٹھی یا ایک لپ ستو بھی نہیں ‘‘ یہ کلام ابھی پورا بھی نہ ہوا کہ آسمان سے ایک نہایت خوفناک آواز آئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت تو نہیں آگئی؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا: نہیں، یہ اسرافیل آرہے ہیں جو آپ کا کلام سن کر آپ کے پاس آرہے ہیں۔ اسرافیل پہنچے تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات سن کر مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے کر بھیجاہے کہ میں آپ کے ساتھ تہامہ کے پہاڑ سونے، چاندی اور زمرد و یاقوت کے بنا کر چلا دیتا ہوں۔ آپ کی پسند ہے چاہے بادشاہ نبی بنو یا بندے نبی؟ تو جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ کے لیے تواضع اختیار کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اللہ کا نبی اور بندہ بننا پسند کروں گا۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني (۷۱۳۱)۔)اس سے ثابت ہوا کہ غنی شکر گزار سے فقیر صبر کرنے والا بہتر ہے۔ نیز ثابت ہوا کہ اگر اپنی غریبی و مسکنت بطور جزع و فزع کے اظہار سے نہ کہے تو توکل اور زہد کے منافی نہیں ہے۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت تک جو کی روٹی سے سیر نہ ہوئے تھے، (صحیح بخاري، کتاب الاطعمة، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلو، حدیث:۵۴۱۴۔)اور جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لوہے کی زرہ کچھ جَو کے عوض ایک یہودی کے پاس رہن تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال کے لیے قرض لیا تھا۔(صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۷)، حدیث:۴۴۶۷۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فوراً تقسیم کر دیتے، اور اللہ کے راستے میں فقراء و مساکین کودے دیتے، یہی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں صدیق و فاروق رضی اللہ عنہماکا تھا۔
اس لمبی حدیث سے دیگر مندرجہ ذیل مسائل بھی اخذ ہوتے ہیں۔
٭ سیر ہو کر کھانا درست ہے مگر اتنا جتنا ثابت ہے کہ پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانا، ایک تہائی پینا، اور ایک تہائی حصہ سانس کے لیے خالی چھوڑا جائے۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھوک سے مستغنی اور مستثنیٰ نہیں تھے بلکہ انسان ہونے کے ناطے کھانے اور پینے کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
٭ دوست اور ساتھی کے گھر بلا اطلاع اور بغیر پروگرام کے جایا جا سکتا ہے اور وہاں سے دعوت کھانا درست ہے۔
٭ مشورہ جب طلب کیا جائے تو پوری دیانتداری سے دیا جائے۔
٭ نمازی کو بے نمازی پر ترجیح دی جائے۔
٭ احسان کا بدلہ احسان سے دیا جائے اگر موقع پر موجود نہ ہو تو وعدہ کر لیا جائے یا کسی دوسرے موقع پر دیا جائے۔
٭ نیکو کار لوگوں کو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے نیک سیرت عورت کا انتخاب کرنا چاہیے جو نیکی کے راہ میں معاون اور ممد ہو۔
٭ ’’بطانہ‘‘ دلی دوست جب اچھائی اور نیکی کا کام کہے تو اسے رد نہیں کرنا چاہیے۔ وغیر ذلک۔
٭ مالدار شخص کا گھر والوں کی خدمت اور ان کے حوائج ضروریہ کو پورا کرنے کے لیے خود مشقت والا کام کرنا بزرگی اور بڑائی کے منافی نہیں۔
٭ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کا مال ’’مالِ غیر دلِ بے رحم‘‘ کی طرح خرچ نہیں کروانا چاہیے بلکہ ان سے ہمدردی اور شفقت کرنی چاہیے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو! ہمارے لیے کوئی دودھ والا جانور ذبح نہ کرنا۔‘‘