كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ،حَدَّثَنَا سَيَّارٌ،حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ: ((شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَطْنِهِ عَنْ حَجَرَيْنِ)) قَالَ أَبُو عِيسَى: " هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي طَلْحَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ، كَانَ أَحَدُهُمْ يَشُدُّ فِي بَطْنِهِ الْحَجَرَ مِنَ الْجُهْدِ وَالضَّعْفِ الَّذِي بِهِ مِنَ الْجُوعِ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان
’’سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدتِ بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے ایک ایک پتھر دکھائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے دو پتھر دکھائے۔امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ابو طلحہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اس کو صرف اسی سند کے ساتھ جانتے ہیں اور((وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُوْنِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجِرٍ)) کا معنی ہے کہ وہ لوگ مشقت اور کمزوری جو بھوک کی وجہ سے تھی کی بنا پر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے۔‘‘
تشریح :
عرب کی عموماً اور اہل مدینہ کی خصوصاً یہ عادت تھی کہ بھوک کے وقت آدمی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا اور جس کو زیادہ بھوک ہوتی و ہ دو پتھر باندھ لیتا تو اس طرح چلنا پھرنا آسان ہو جاتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام بھی زیادہ تھا اور بھوک بھی زیادہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھر باندھے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے میں وصال سے منع فرمایا، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وصال فرماتے ہیں ؟ فرمایا: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الوصال، حدیث:۱۹۶۱،۱۹۶۲۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب النهي عن الوصال، حدیث:۱۱۰۲۔)ایک روایت میں ہے کہ ’’میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الوصال، حدیث:۱۹۶۴،۱۹۶۶۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب النهي عن الوصال، حدیث:۱۱۰۳۔)یہ اور اس طرح کی دیگر روایات دیکھ کر امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ پتھر والی روایات درست نہیں ہیں۔ بلکہ یہ لفظ حجر کی بجائے حجز ہے جس کے معنی تہبند کے ہیں کیونکہ پتھر کبھی بھوک سے کافی نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ روزے میں وصال کی وجہ سے بھوک نہ محسوس کرنا، یہ امر وصال کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ اور زیادہ احساس کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر باندھ لیتے تھے۔
دلائل النبوۃ للبیہقی میں ہے کہ ایک سخت چٹان آگئی جو خندق کھودنے کے دوران میں ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے اور ہم نے تین دنوں سے کچھ چکھا تک نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گینتی لی اور اس چٹان پر مارا، تو وہ بھر بھرا ٹیلہ بن گئی حالانکہ اس چٹان پر گینتیاں کام نہیں کر رہی تھیں جب اس کا ایک تہائی حصہ الگ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے شام کی چابیاں دی گئیں اور میں اس کے سرخ محل دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر دوسری دفعہ مارا، تو دوسری تہائی الگ ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے فارس کی چابیاں بھی دی گئیں ہیں اور میں مدائن کا سفید محل اب دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر گینتی ماری اور بسم اللہ کہا تو فرمایا : ’’اللہ اکبر ! مجھے یمن کی چابیاں بھی دے دی گئیں ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس جگہ سے صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (دلائل النبوة للبیهقي (۳؍۴۴۹)۔)اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کا احساس ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے دو پتھر بھی پیٹ پر باندھ رکھے تھے۔
تخریج :
یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے، راوی سیار بن حاتم صدوق ہے جس کے بہت سے اوھام ہیں امام البانی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب سلسلة الأحادیث الصحیحة میں (۱۶۱۵) دو دیگر سندوں سے روایت کیا ہے لیکن ان میں بھی ضعف ہے جبکہ امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان تینوں سندوں کو ملا کر یہ حدیث حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ والله اعلم۔ سنن ترمذي، أبواب الزهد (۴؍۲۳۷۱)، أخلاق النبي صلى الله علیه وسلم لابي الشیخ (ص:۲۸۸)
عرب کی عموماً اور اہل مدینہ کی خصوصاً یہ عادت تھی کہ بھوک کے وقت آدمی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا اور جس کو زیادہ بھوک ہوتی و ہ دو پتھر باندھ لیتا تو اس طرح چلنا پھرنا آسان ہو جاتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام بھی زیادہ تھا اور بھوک بھی زیادہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھر باندھے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے میں وصال سے منع فرمایا، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وصال فرماتے ہیں ؟ فرمایا: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الوصال، حدیث:۱۹۶۱،۱۹۶۲۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب النهي عن الوصال، حدیث:۱۱۰۲۔)ایک روایت میں ہے کہ ’’میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الوصال، حدیث:۱۹۶۴،۱۹۶۶۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب النهي عن الوصال، حدیث:۱۱۰۳۔)یہ اور اس طرح کی دیگر روایات دیکھ کر امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ پتھر والی روایات درست نہیں ہیں۔ بلکہ یہ لفظ حجر کی بجائے حجز ہے جس کے معنی تہبند کے ہیں کیونکہ پتھر کبھی بھوک سے کافی نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ روزے میں وصال کی وجہ سے بھوک نہ محسوس کرنا، یہ امر وصال کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ اور زیادہ احساس کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر باندھ لیتے تھے۔
دلائل النبوۃ للبیہقی میں ہے کہ ایک سخت چٹان آگئی جو خندق کھودنے کے دوران میں ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے اور ہم نے تین دنوں سے کچھ چکھا تک نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گینتی لی اور اس چٹان پر مارا، تو وہ بھر بھرا ٹیلہ بن گئی حالانکہ اس چٹان پر گینتیاں کام نہیں کر رہی تھیں جب اس کا ایک تہائی حصہ الگ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے شام کی چابیاں دی گئیں اور میں اس کے سرخ محل دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر دوسری دفعہ مارا، تو دوسری تہائی الگ ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے فارس کی چابیاں بھی دی گئیں ہیں اور میں مدائن کا سفید محل اب دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر گینتی ماری اور بسم اللہ کہا تو فرمایا : ’’اللہ اکبر ! مجھے یمن کی چابیاں بھی دے دی گئیں ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس جگہ سے صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (دلائل النبوة للبیهقي (۳؍۴۴۹)۔)اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کا احساس ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے دو پتھر بھی پیٹ پر باندھ رکھے تھے۔