كِتَابُ بَابُ: مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ نَمكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَا التَّمْرُ وَالْمَاءُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزر بسر کا بیان
’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں : ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ بھر ٹھہرے رہتے، آگ نہ جلاتے، ہمارے پاس صرف کھجوریں اور پانی ہوتا۔‘‘
تشریح :
آگ نہ جلانے کا مطلب یہ ہے کہ پکانے کے لیے کوئی چیز ہوتی ہی نہ تھی جس کے لیے آگ جلانا پڑتی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی گذران کا عالم ہے اور یہ اسلام کے ان ابتدائی سالوں کا بیان ہے جبکہ ریاستِ مدینہ ابھی ابھی قائم ہوئی تھی، بعد ازاں جب فتوحات سے مالِ غنیمت آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہلِ بیت کے لیے ایک سال کا اناج دے دیتے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔( صحیح بخاري، کتاب النفقات، باب حبس الرجل قوت سنة علی أهله، حدیث:۵۳۵۷۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفئ، حدیث:۱۷۵۷۔)پھر یہ سال بھر کا اناج بھی امہات المومنین کے ذریعے حاجت مندوں، ضرورت مندوں اور نئے مسلمان ہونے والوں تک پہنچ جاتا یا پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر اس میں سے خرچ فرما دیتے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقر اختیاری تھا اضطراری نہیں تھا اور تاوقت وفات یہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درع (زرہ) ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۷)، حدیث:۴۴۶۷۔)
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ ازواج النبی آل رسول میں سے ہیں کیونکہ ازواج النبی میں سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں ’’کُنَّا اٰلُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وسلم ‘‘
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الرقاق (۱۱؍۶۴۵۸)، صحیح مسلم، کتاب الذهد (۴؍۲۶ برقم ۲۲۸۲)
آگ نہ جلانے کا مطلب یہ ہے کہ پکانے کے لیے کوئی چیز ہوتی ہی نہ تھی جس کے لیے آگ جلانا پڑتی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی گذران کا عالم ہے اور یہ اسلام کے ان ابتدائی سالوں کا بیان ہے جبکہ ریاستِ مدینہ ابھی ابھی قائم ہوئی تھی، بعد ازاں جب فتوحات سے مالِ غنیمت آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہلِ بیت کے لیے ایک سال کا اناج دے دیتے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔( صحیح بخاري، کتاب النفقات، باب حبس الرجل قوت سنة علی أهله، حدیث:۵۳۵۷۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفئ، حدیث:۱۷۵۷۔)پھر یہ سال بھر کا اناج بھی امہات المومنین کے ذریعے حاجت مندوں، ضرورت مندوں اور نئے مسلمان ہونے والوں تک پہنچ جاتا یا پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر اس میں سے خرچ فرما دیتے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقر اختیاری تھا اضطراری نہیں تھا اور تاوقت وفات یہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درع (زرہ) ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب (۸۷)، حدیث:۴۴۶۷۔)
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ ازواج النبی آل رسول میں سے ہیں کیونکہ ازواج النبی میں سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں ’’کُنَّا اٰلُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وسلم ‘‘