شمائل ترمذی - حدیث 359

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي حِجَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا حَجَّامًا فَحَجَمَهُ وَسَأَلَهُ: ((كَمْ خَرَاجُكَ؟)) فَقَالَ: ثَلَاثَةُ آصُعٍ، فَوَضَعَ عَنْهُ صَاعًا وَأَعْطَاهُ أَجْرَهُ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 359

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینگی لگوانے کا بیان ’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے والے کو بلایا اور سینگی لگوائی اور اس سے پوچھا کہ تیرا روزانہ کا محصول (ٹیکس) کتنا ہے؟ تو اس نے عرض کیا: تین صاع، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کم کروا دیا اور اس کو مزدوری بھی عطا کر دی۔‘‘
تشریح : عرب میں یہ طریقہ رائج تھا کہ غلام کو اس شرط پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ اپنی کمائی کی مقررہ مقدار آقا کو دے اور باقی خود رکھ لے، ایسے غلاموں کو ’’عَبْدٌ مَاْذُوْنٌ‘‘ کہا جاتا۔ شفیقِ غریباں، سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک سے سفارش کر کے اس کی روزانہ مقررہ مقدار سے ایک صاع کم کروا دیا۔ اللهم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما تحب و ترضی له۔
تخریج : یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے کیونکہ راوی ابن ابی لیلی ضعیف سیء الحفظ ہے۔ البتہ شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۳؍۳۵۳)، مستدرك حاکم (۴؍۲۱۰)، مصنف ابن أبي شیبة (۴؍۳۵۴ برقم ۲۰۹۸۳)۔ عرب میں یہ طریقہ رائج تھا کہ غلام کو اس شرط پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ اپنی کمائی کی مقررہ مقدار آقا کو دے اور باقی خود رکھ لے، ایسے غلاموں کو ’’عَبْدٌ مَاْذُوْنٌ‘‘ کہا جاتا۔ شفیقِ غریباں، سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک سے سفارش کر کے اس کی روزانہ مقررہ مقدار سے ایک صاع کم کروا دیا۔ اللهم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما تحب و ترضی له۔