شمائل ترمذی - حدیث 358

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي حِجَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ((إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِي الْأَخْدَعَيْنِ وَبَيْنَ الْكَتِفَيْنِ، وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ وَلَوْ كَانَ حَرَامًا لَمْ يُعْطِهِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 358

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینگی لگوانے کا بیان ’’امام شعبی، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بلا شبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن کی رگوں اور کندھوں کے درمیان سینگی لگوائی اور سینگی لگانے والے کو اجرت دی۔ اگر یہ حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سینگی لگانے والے کو اجرت نہ دیتے۔‘‘
تشریح : سینگی لگانے والے کی کمائی کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں ایک حدیث میں ہے کہ ((کَسَبُ الْحَجَّامِ خَبِیْثٌ)) (صحیح مسلم، کتاب المساقاة، باب تحریم ثمن الکلب، حدیث:۴۱؍۱۵۶۸۔)یعنی سینگی لگانے والے کی کمائی پلید ہے جبکہ صحیحین کی مذکورہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجرت ادا کی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ممانعت اور غیر ممانعت کی احادیث میں اس طرح تطبیق کرتے ہیں کہ اجازت کی روایات غلاموں کے بارے میں ہیں اور ممانعت کی روایات آزاد افراد کے حق میں ہیں۔ چونکہ ابو طیبہ غلام تھے اس لیے انہیں اجرت ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں۔ جبکہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حجام کی کمائی ناپسند اس لیے ہے کہ یہ ان کاموں میں سے ہے جن میں بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے لہٰذا حجام خود طلب نہ کرے، ہاں اگر کوئی دیدے تو لینا مباح ہے۔ ہمارے نزدیک اس بارے میں جمہور کا موقف اقرب الی الصواب ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ کمائی ایسی ہے جس میں گھٹیا پن ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ لہٰذا یہ زجرو نہی تنز یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب البیوع، باب ذکر الحجام، وصحیح مسلم،کتاب الحج۔ سینگی لگانے والے کی کمائی کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں ایک حدیث میں ہے کہ ((کَسَبُ الْحَجَّامِ خَبِیْثٌ)) (صحیح مسلم، کتاب المساقاة، باب تحریم ثمن الکلب، حدیث:۴۱؍۱۵۶۸۔)یعنی سینگی لگانے والے کی کمائی پلید ہے جبکہ صحیحین کی مذکورہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجرت ادا کی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ممانعت اور غیر ممانعت کی احادیث میں اس طرح تطبیق کرتے ہیں کہ اجازت کی روایات غلاموں کے بارے میں ہیں اور ممانعت کی روایات آزاد افراد کے حق میں ہیں۔ چونکہ ابو طیبہ غلام تھے اس لیے انہیں اجرت ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں۔ جبکہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حجام کی کمائی ناپسند اس لیے ہے کہ یہ ان کاموں میں سے ہے جن میں بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے لہٰذا حجام خود طلب نہ کرے، ہاں اگر کوئی دیدے تو لینا مباح ہے۔ ہمارے نزدیک اس بارے میں جمہور کا موقف اقرب الی الصواب ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ کمائی ایسی ہے جس میں گھٹیا پن ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ لہٰذا یہ زجرو نہی تنز یہی ہے۔ واللہ اعلم۔