شمائل ترمذی - حدیث 356

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي حِجَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، فَقَالَ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ أَهْلَهُ فَوَضَعُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ وَقَالَ: ((إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتَمْ بِهِ الْحِجَامَةُ)) ، أَوْ ((إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمُ الْحِجَامَةَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 356

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینگی لگوانے کا بیان ’’حمید فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سینگی لگانے والے کی کمائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگانے والا ابو طیبہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو صاع غلہ دینے کا حکم فرمایا اور اس کے آقا سے بات بھی کی (جس کی وجہ سے) انہوں نے اس کا کچھ ٹیکس کم کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سینگی لگوانا تمہارا بہترین علاج ہے‘‘ یا یہ فرمایا: ’’تمہاری بہترین دوائی سینگی لگوانا ہے۔‘‘
تشریح : ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں بیشتر مرتبہ سینگی لگوائی، صحیح البخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سینگی لگوائی ((اِحْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الحجامة والقیٔ للصائم، حدیث:۱۹۳۹۔)جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ((أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ)) (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب في الصائم یحتجم، حدیث:۲۳۶۷۔۲۳۷۱۔ سنن ابن ماجة (۱۶۸۰،۱۶۸۱)۔)یعنی سینگی لگوانے والے اور لگانے والے کا روزہ نہیں رہتا۔ اس روایت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے کہ سینگی لگانے والے کے حلق میں خون چلے جانے کا امکان ہوتا ہے اور لگوانے والے کے کمزور ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے روزہ کی حالت میں ممانعت کر دی گئی۔بعض کہتے ہیں کہ روزہ ٹوٹ جانے کا مسئلہ پہلے تھا بعد میں منسوخ ہو گیا اب سینگی لگوانا روزہ دار کے لیے جائز ہے۔ یہ مؤقف امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی رحمہم اللہ اور جمہور کا ہے۔ دیکھیے: نیل الأوطار (۳؍۱۷۱)، تحفة الأحوذي (۳؍۵۶۳)، المحلی بالآثار لابن حزم (۴؍۳۳۵)۔ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سینگی لگوائی، اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں فرمایا، گرم علاقوں میں رہنے والوں کے مزاج گرمی کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں تو ان کے جسم میں خشکی پید اہو جاتی ہے جس کی وجہ سے خون میں غلظت (گاڑھا پن) آجاتا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے سینگی لگوانا بڑا مفید ہے جبکہ سرد ممالک اور سرد مزاج کے لوگوں کے لیے ’’فَصَدْ‘‘ مفید ہے۔ ٭ ابوطیبہ: طاء کے فتحہ سے ہے ان کا نام نافع ہے اور یہ محیصہ بن مسعود کے مولیٰ ہیں۔ ٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ حجام کو اجرت دینا اور اس کا اجرت لینا مباح ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کسی چیز کے دینے کا حکم نہ فرماتے۔
تخریج : صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب ذکر الحجام، وکتاب الطب (۱۰؍۵۶۹۶)، صحیح مسلم، کتاب المساقاة (۳؍۶۲برقم ۱۲۰۳) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں بیشتر مرتبہ سینگی لگوائی، صحیح البخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سینگی لگوائی ((اِحْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب الحجامة والقیٔ للصائم، حدیث:۱۹۳۹۔)جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ((أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ)) (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب في الصائم یحتجم، حدیث:۲۳۶۷۔۲۳۷۱۔ سنن ابن ماجة (۱۶۸۰،۱۶۸۱)۔)یعنی سینگی لگوانے والے اور لگانے والے کا روزہ نہیں رہتا۔ اس روایت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے کہ سینگی لگانے والے کے حلق میں خون چلے جانے کا امکان ہوتا ہے اور لگوانے والے کے کمزور ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے روزہ کی حالت میں ممانعت کر دی گئی۔بعض کہتے ہیں کہ روزہ ٹوٹ جانے کا مسئلہ پہلے تھا بعد میں منسوخ ہو گیا اب سینگی لگوانا روزہ دار کے لیے جائز ہے۔ یہ مؤقف امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی رحمہم اللہ اور جمہور کا ہے۔ دیکھیے: نیل الأوطار (۳؍۱۷۱)، تحفة الأحوذي (۳؍۵۶۳)، المحلی بالآثار لابن حزم (۴؍۳۳۵)۔ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سینگی لگوائی، اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں فرمایا، گرم علاقوں میں رہنے والوں کے مزاج گرمی کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں تو ان کے جسم میں خشکی پید اہو جاتی ہے جس کی وجہ سے خون میں غلظت (گاڑھا پن) آجاتا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے سینگی لگوانا بڑا مفید ہے جبکہ سرد ممالک اور سرد مزاج کے لوگوں کے لیے ’’فَصَدْ‘‘ مفید ہے۔ ٭ ابوطیبہ: طاء کے فتحہ سے ہے ان کا نام نافع ہے اور یہ محیصہ بن مسعود کے مولیٰ ہیں۔ ٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ حجام کو اجرت دینا اور اس کا اجرت لینا مباح ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کسی چیز کے دینے کا حکم نہ فرماتے۔