شمائل ترمذی - حدیث 35

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرَجُّلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عنِ التَّرَجُّلِ إِلَّا غِبًّا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 35

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھی کرنے کا بیان ’’ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاناغہ ؍روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
تشریح : حدیث الباب میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حکم کی بنا پر ہفتہ میں ایک دفعہ کنگھی کرنا چاہیے۔ (سنن نسائي، کتاب الزینة، باب الترجل غبا، حدیث:۵۰۶۰ بمعناه۔) امام احمد بن حنبل اس کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ ایک دن کنگھی کرے اور ایک دن ناغہ کرے۔ مذکورہ حدیث سے روزانہ کنگھی کرنے کی کراہت معلوم ہو تی ہے کیونکہ یہ عیش وآرام کی ایک قسم ہے اور ایک دوسری حدیث میں عیش وآرام سے منع کیا گیاہے۔ اس حدیث میں ہر وقت بالوں کو سیدھے کرتے رہنا اور تیل لگاتے رہنا سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ علامہ مناوی رحمہ اللہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : اس حدیث میں بالوں کو روزانہ کنگھی کرنے سے اس لیے منع کیا گیاہے کہ یہ عجمیوں اور دنیا داروں کا لباس ہے اور غِبًّا سے مراد ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن کرنا ہے، جو کہ مسنون ہے، لہٰذا ممانعت صرف مواظبت کرنے اور بہت زیادہ اہتمام کرنے کی ہے، اس لیے اس طرح زیب و زینت اختیار کرنے میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ سنن نسائی میں موجود سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ میرے بال جمّہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ’’میں ان کو اچھا بناؤں اور روازانہ کنگھی کروں۔‘‘ (سنن نسائي، کتاب الزینة، باب تسکین الشعر، حدیث:۵۲۳۹ اسناده ضعیف۔ سند منقطع ہے۔ محمد بن منکدر کی ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔)تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کی سند منقطع ہے اور اگر یہ انقطاع دور کر دیا جائے تویہ حدیث اس بات پر محمول کی جائے گی کہ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ خصوصی طور پر ضرورت مند تھے کہ وہ روازانہ کنگھی کریں کیونکہ ان کے بال بہت گھنے تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ حکم دے دیا۔ اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا (موطا امام مالك (۲؍۹۴۹)، کتاب الشعر، واسناده، ضعیف، اس کی سند مرسل یا معضل ہے۔)میں بھی منقطع سند سے نقل فرمایاہے۔ اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے جمّہ بال ہیں تو کیا میں کنگھی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ! اور ان کا اکرام کرو۔ تو ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کبھی کبھی دن میں دو مرتبہ تیل لگاتے، کیونکہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تکریم کا حکم دیا تھا۔ سنن ابی داؤد (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب (۱)، حدیث:۴۱۶۰۔)شریف میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارفاء کرنے سے منع فرمایا۔ پوچھا گیا کہ ارفاء کیا ہے؟ تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز کنگھی کرنا۔ اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرَنَا أَنْ نَحْتَفِيَ اَحْیَانًا۔)) ’’ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنے کے حکم فرماتے تھے۔ ‘‘ نیز ایک اور روایت سنن ابی داؤد میں ہے کہ: ((مَنْ کَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْیُکْرِمْهُ۔)) (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب في اصلاح الشعر، حدیث:۴۱۶۳۔)....’’ کہ جس کے بال ہوں وہ ان کی تکریم کرے۔ ‘‘ یعنی ان کو دھوکر، کنگھی تیل کرکے صاف ستھرے اور خوبصورت بنائے، انہیں پر اگندہ اور بکھرے ہوئے نہ چھوڑے کیونکہ نظافت اختیار کرنا اور خوش شکل ہو نا انسب اور بہتر ہے۔ اس مسئلہ میں بظاہر متعارض احادیث ہیں۔ امام منذری رحمہ اللہ نے ان میں یوں تطبیق فرمائی ہے کہ احتمال یہ ہے کہ کنگھی کرنے میں ناغہ کرنے کے حکم والی احادیث اس شخص پر محمول کی جائیں جو بیماری یا سردی کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا ہو، اس لیے اس کو تکلیف دہ چیز سے روک دیا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیدنا ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کو بالوں کو سنوارنے اور روزانہ کنگھی کرنے کا حکم دیا وہ حکم لازم اور فرض نہ ہو بلکہ بطور استحباب ہو۔ الغرض اس مسئلہ میں سنت والا عمل ناغہ کرنا ہے کہ کنگھی کرنے میں ناغہ کیا جائے۔ والله اعلم۔
تخریج : یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الترجل (۴۱۵۹)، سنن نسائي، کتاب الزینة (۸ ؍ ۱۳۲)، جامع ترمذي، کتاب اللباس (۱۷۵۶)، وقال حدیث حسن صحیح۔ صحیح ابن حبان (۷ ؍ ۴۱۰)، مسندأحمد حنبل (۴؍ ۸۶)، حلیة الأولیاء لأبي نعیم (۶ ؍ ۲۷۶)، التمهید لابن عبدالبر (۵ ؍ ۵۳)، حدیث الباب مذکور سند کے ساتھ ضعیف ہے، کیونکہ اس میں حسن بصری مدلس ہیں اور انہوں نے عنعنہ کے ساتھ روایت کی ہے، لیکن اس حدیث کے شواہد مذکورہ محولہ بالا کتب میں موجود ہیں، جن کی وجہ سے بلا شبہ یہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث الباب میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حکم کی بنا پر ہفتہ میں ایک دفعہ کنگھی کرنا چاہیے۔ (سنن نسائي، کتاب الزینة، باب الترجل غبا، حدیث:۵۰۶۰ بمعناه۔) امام احمد بن حنبل اس کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ ایک دن کنگھی کرے اور ایک دن ناغہ کرے۔ مذکورہ حدیث سے روزانہ کنگھی کرنے کی کراہت معلوم ہو تی ہے کیونکہ یہ عیش وآرام کی ایک قسم ہے اور ایک دوسری حدیث میں عیش وآرام سے منع کیا گیاہے۔ اس حدیث میں ہر وقت بالوں کو سیدھے کرتے رہنا اور تیل لگاتے رہنا سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ علامہ مناوی رحمہ اللہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : اس حدیث میں بالوں کو روزانہ کنگھی کرنے سے اس لیے منع کیا گیاہے کہ یہ عجمیوں اور دنیا داروں کا لباس ہے اور غِبًّا سے مراد ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن کرنا ہے، جو کہ مسنون ہے، لہٰذا ممانعت صرف مواظبت کرنے اور بہت زیادہ اہتمام کرنے کی ہے، اس لیے اس طرح زیب و زینت اختیار کرنے میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ سنن نسائی میں موجود سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ میرے بال جمّہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ’’میں ان کو اچھا بناؤں اور روازانہ کنگھی کروں۔‘‘ (سنن نسائي، کتاب الزینة، باب تسکین الشعر، حدیث:۵۲۳۹ اسناده ضعیف۔ سند منقطع ہے۔ محمد بن منکدر کی ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔)تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کی سند منقطع ہے اور اگر یہ انقطاع دور کر دیا جائے تویہ حدیث اس بات پر محمول کی جائے گی کہ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ خصوصی طور پر ضرورت مند تھے کہ وہ روازانہ کنگھی کریں کیونکہ ان کے بال بہت گھنے تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ حکم دے دیا۔ اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا (موطا امام مالك (۲؍۹۴۹)، کتاب الشعر، واسناده، ضعیف، اس کی سند مرسل یا معضل ہے۔)میں بھی منقطع سند سے نقل فرمایاہے۔ اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے جمّہ بال ہیں تو کیا میں کنگھی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ! اور ان کا اکرام کرو۔ تو ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کبھی کبھی دن میں دو مرتبہ تیل لگاتے، کیونکہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تکریم کا حکم دیا تھا۔ سنن ابی داؤد (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب (۱)، حدیث:۴۱۶۰۔)شریف میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارفاء کرنے سے منع فرمایا۔ پوچھا گیا کہ ارفاء کیا ہے؟ تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز کنگھی کرنا۔ اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرَنَا أَنْ نَحْتَفِيَ اَحْیَانًا۔)) ’’ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنے کے حکم فرماتے تھے۔ ‘‘ نیز ایک اور روایت سنن ابی داؤد میں ہے کہ: ((مَنْ کَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْیُکْرِمْهُ۔)) (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب في اصلاح الشعر، حدیث:۴۱۶۳۔)....’’ کہ جس کے بال ہوں وہ ان کی تکریم کرے۔ ‘‘ یعنی ان کو دھوکر، کنگھی تیل کرکے صاف ستھرے اور خوبصورت بنائے، انہیں پر اگندہ اور بکھرے ہوئے نہ چھوڑے کیونکہ نظافت اختیار کرنا اور خوش شکل ہو نا انسب اور بہتر ہے۔ اس مسئلہ میں بظاہر متعارض احادیث ہیں۔ امام منذری رحمہ اللہ نے ان میں یوں تطبیق فرمائی ہے کہ احتمال یہ ہے کہ کنگھی کرنے میں ناغہ کرنے کے حکم والی احادیث اس شخص پر محمول کی جائیں جو بیماری یا سردی کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا ہو، اس لیے اس کو تکلیف دہ چیز سے روک دیا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیدنا ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کو بالوں کو سنوارنے اور روزانہ کنگھی کرنے کا حکم دیا وہ حکم لازم اور فرض نہ ہو بلکہ بطور استحباب ہو۔ الغرض اس مسئلہ میں سنت والا عمل ناغہ کرنا ہے کہ کنگھی کرنے میں ناغہ کیا جائے۔ والله اعلم۔