شمائل ترمذی - حدیث 349

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ أَبُو الْقَاسِمِ الْقُرَشِيُّ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، حَتَّى يَنْسَلِخَ فَيَأْتِيهِ جِبْرِيلُ فَيَعْرِضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 349

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان ’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ا سکے ختم ہونے تک نہایت ہی سخی ہوتے، جبرئیل امین علیہ السلام آپ کے پاس آتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قرآن کریم کا دور کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل امین علیہ السلام سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت خرچ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے۔‘‘
تشریح : ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے کیونکہ یہ وصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً تمام لوگوں سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر متوجہ تھے، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ آتا فوراً خرچ کر دیتے، خصوصی طور پر رمضان المبارک میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے۔ ٭ رمضان المبارک، ماہِ صیام کے ساتھ ساتھ ماہِ قرآن بھی ہے اسی مہینہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں قرآن کریم کا دور کرتے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے لفظ یہ بھی ہیں : ((فَیُدَا رِسُهُ الْقُرْآنَ)) (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي الی رسول الله صلى الله علیه وسلم، حدیث:۶۔)ایک روایت یوں بھی ہیں کہ ((إِنَّ جِبْرَئِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِيْ بِالْقُرْآنِ)) (صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حدیث:۳۶۲۴۔)...تو یہ معارضت اور مدارست دونوں طرف سے ہوتی ہے کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے اور جبرائیل امین علیہ السلام سنتے اور کبھی جبرئیل امین علیہ السلام پڑھتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرماتے۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ ((وَکَانَ یَلْقَاهُ فِيْ کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّی یَنْسَلِخَ)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبي صلى الله علیه وسلم یکون في رمضان، حدیث:۱۹۰۲۔)یعنی جبرئیل امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے حتیٰ کہ ماہِ صیام اختتام پذیر ہو جاتا۔ قرآن کریم کا یہ مدارسہ اور معارضہ ہجرت کے بعد تک محدود نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتا، اگرچہ روزے بعد میں فرض ہوئے۔
تخریج : صحیح بخاری،کتاب بدء الوحي (۱؍۶) و کتاب الصوم (۱۹۰۲) وکتاب بدء الخلق (۳۲۳۰) وکتاب المناقب (۳۵۵۴) وکتاب فضائل القرآن (۴۹۹۷)، وصحیح مسلم، کتاب الفضائل (۴؍۵۰؍۱۸۰۲) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے کیونکہ یہ وصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً تمام لوگوں سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر متوجہ تھے، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ آتا فوراً خرچ کر دیتے، خصوصی طور پر رمضان المبارک میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے۔ ٭ رمضان المبارک، ماہِ صیام کے ساتھ ساتھ ماہِ قرآن بھی ہے اسی مہینہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں قرآن کریم کا دور کرتے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے لفظ یہ بھی ہیں : ((فَیُدَا رِسُهُ الْقُرْآنَ)) (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي الی رسول الله صلى الله علیه وسلم، حدیث:۶۔)ایک روایت یوں بھی ہیں کہ ((إِنَّ جِبْرَئِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِيْ بِالْقُرْآنِ)) (صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حدیث:۳۶۲۴۔)...تو یہ معارضت اور مدارست دونوں طرف سے ہوتی ہے کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے اور جبرائیل امین علیہ السلام سنتے اور کبھی جبرئیل امین علیہ السلام پڑھتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرماتے۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ ((وَکَانَ یَلْقَاهُ فِيْ کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّی یَنْسَلِخَ)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبي صلى الله علیه وسلم یکون في رمضان، حدیث:۱۹۰۲۔)یعنی جبرئیل امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے حتیٰ کہ ماہِ صیام اختتام پذیر ہو جاتا۔ قرآن کریم کا یہ مدارسہ اور معارضہ ہجرت کے بعد تک محدود نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتا، اگرچہ روزے بعد میں فرض ہوئے۔