شمائل ترمذی - حدیث 348

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: " مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 348

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان ’’سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ’’لَا‘‘ یعنی نہیں کا لفظ نہیں بولا۔‘‘
تشریح : ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی زیادہ سخاوت کرنے والے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی دنیوی چیز مانگی جاتی تو عنایت فرما دیتے یا دینے کا وعدہ فرماتے یا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یہ سائل غنی ہو جائے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَ إِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۸) یعنی ’’اگر آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی تلاش کرنے کی غرض سے ان سے اعراض کر لیں تو ان سے اچھی اور نرم بات کیجیے۔‘‘ اس جگہ مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطیہ نہ دیتے ہوئے کبھی نہ نہیں فرمائی، ہاں بطور معذوری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر معذرت کر لی تو یہ درست ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معذرت کا ذکر کیا ہے کہ ﴿قُلْتَ لَآ أَجِدُ مَآ أَحْمِلُکُمْ عَلَیْهِ﴾یعنی غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے فقراء لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے سواری کا تعاون فرمائیں کہ ہم بھی اس غزوہ میں شمولیت کے ثواب سے محروم نہ رہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں جو کہ میں تمہیں دے سکوں۔ ٭ صحیح البخاری و مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے۔ کہ ((کَانَ أَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِيْ شَهْرِ رَمَضَانَ....الخ)) (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللّٰه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب جوده صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۰۸۔) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت زیادہ ہی سخی ہو جاتے تھے۔ ‘‘سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے نام پر جو چیز بھی مانگی جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور دیتے ایک آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دو پہاڑوں کے درمیان جتنی بکریاں ہیں لے جاؤ‘‘ وہ شخص جب بکریاں لے کر اپنی قوم کے پاس گیا تو کہنے لگا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ انھیں فقیری اور فاقے کا بھی کوئی ڈر نہیں رہتا، اس لیے تم سب مسلمان ہو جاؤ،( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في سخاءه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۱۲۔) اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا لینے آتا تو شام سے پہلے پہلے تمام دنیا سے زیادہ اسے اپنا دین محبوب اور پیارا ہو جاتا۔ ٭ یوم حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم میں سے ایک بڑا حصہ مؤلفۃ القلوب کو عنایت فرمایا تاکہ وہ اسلام سے مالوف و مانوس ہو جائیں تو انصار میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کچھ نہیں دیتے اور جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں انہیں سب کچھ دیے جا رہے ہیں ؟ جب یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ایک کمرے میں جمع کیا اور فرمایا: کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟ انہوں نے عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہ! ہم میں سے نوجوانوں اور خفیف عقول والوں، کم سمجھ والوں نے ایسی باتیں کی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بکریاں، بھیڑیں،اونٹ اور درہم و دینار لے کر گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھروں میں جاؤ؟ ’’سب نے کہا: یا رسول اللہ! ہم راضی ہیں ہم راضی ہیں۔( صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم یعطي المؤلفة قلوبهم، حدیث:۳۱۴۷۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم، حدیث:۱۰۵۹۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ مال مانگا کہ میں نے جنگ بدر میں اپنا بھی اور عقیل کا بھی فدیہ دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بحرین سے بڑا مال آیا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہاں سے جتنے دراہم اٹھا سکتے ہو لے جائیے‘‘ انہوں نے بہت سے دراہم کپڑے میں ڈال لیے حتیٰ کہ خود نہ اٹھا سکے تو کہنے لگے مجھے اٹھوا دو۔ فرمایا: ’’نہیں، بلکہ جتنا خود اٹھا سکو لے جاؤ‘‘ انہوں نے کچھ درہم کم کیے پھر بھی نہ اٹھا سکے تو پھر اٹھوانے کا کہا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ جتنا خود اٹھا سکو لے جاؤ‘‘ انہوں نے کچھ درہم مزید کم کیے اور اٹھا کر مسجد سے باہر لے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کی حرص کی وجہ سے پیچھے سے دیکھتے رہے۔( صحیح مسلم، کتاب الجزیة، باب ما أقطع النبی صلى الله علیه وسلم من البحرین، حدیث:۳۱۶۵۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نہایت اعلیٰ سخی نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرآن کریم کا عملی نمونہ تھے جس میں ہے کہ ﴿وَ مَآ أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗ وَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾(السبا:۳۹) یعنی جو بھی تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر رزق دینے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرماتے تھے ((أَنْفِقْ یَا بِلَالُ! وَلَا تَخْشَی مِنْ ذِیْ الْعَرَشِ إِقْلَالًا)) (معجم کبیر طبراني (۱۰۲۰)۔ مسند البزار (الکشف:۱۹۷۸)۔)’’اے بلال! خرچ کرو، اور عرش والے کے فقیر کر دینے سے نہ ڈرنا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ((لَا تُوْعِيْ فَیُوْعِيْ اللّٰهُ عَلَیْكِ وَلَا تُوْکِيْ فَیُوْکِي اللّٰهُ عَلَیْكِ)) (صحیح بخاري، کتاب الزکاة، باب التحریض علی الصدقة، حدیث:۱۴۳۳، ۱۴۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب في الحث علی الإنفاق حدیث:۱۰۲۹۔)’’گن گن کر نہ دو، پھر اللہ تعالیٰ بھی (اجر و ثواب) گن گن کر دے گا، ذخیرہ نہ کرو اور جو کچھ ہاتھ میں ہے اس کو نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے روک لے گا‘‘ نیز فرمایا: ہر روز صبح صبح دو فرشتے منادی کرتے ہیں ایک کہتا ہے: اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور دے دے، اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ بند کر نے والے اور روکنے والے کو تباہی و بربادی نصیب فرما۔( صحیح بخاری، کتاب الزکاة، باب قول اللّٰه تعالیٰ ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی ...﴾حدیث: ۲۴۴۳۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب في المنفق والممسك، حدیث: ۱۰۱۰۔)
تخریج : صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء (۱۰؍۶۰۳۴)، صحیح مسلم، کتاب الفضائل (۴؍۱۸۵) ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی زیادہ سخاوت کرنے والے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی دنیوی چیز مانگی جاتی تو عنایت فرما دیتے یا دینے کا وعدہ فرماتے یا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یہ سائل غنی ہو جائے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَ إِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۸) یعنی ’’اگر آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی تلاش کرنے کی غرض سے ان سے اعراض کر لیں تو ان سے اچھی اور نرم بات کیجیے۔‘‘ اس جگہ مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطیہ نہ دیتے ہوئے کبھی نہ نہیں فرمائی، ہاں بطور معذوری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر معذرت کر لی تو یہ درست ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معذرت کا ذکر کیا ہے کہ ﴿قُلْتَ لَآ أَجِدُ مَآ أَحْمِلُکُمْ عَلَیْهِ﴾یعنی غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے فقراء لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے سواری کا تعاون فرمائیں کہ ہم بھی اس غزوہ میں شمولیت کے ثواب سے محروم نہ رہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں جو کہ میں تمہیں دے سکوں۔ ٭ صحیح البخاری و مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے۔ کہ ((کَانَ أَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِيْ شَهْرِ رَمَضَانَ....الخ)) (صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللّٰه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب جوده صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۰۸۔) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت زیادہ ہی سخی ہو جاتے تھے۔ ‘‘سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے نام پر جو چیز بھی مانگی جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور دیتے ایک آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دو پہاڑوں کے درمیان جتنی بکریاں ہیں لے جاؤ‘‘ وہ شخص جب بکریاں لے کر اپنی قوم کے پاس گیا تو کہنے لگا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ انھیں فقیری اور فاقے کا بھی کوئی ڈر نہیں رہتا، اس لیے تم سب مسلمان ہو جاؤ،( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في سخاءه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۱۲۔) اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا لینے آتا تو شام سے پہلے پہلے تمام دنیا سے زیادہ اسے اپنا دین محبوب اور پیارا ہو جاتا۔ ٭ یوم حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم میں سے ایک بڑا حصہ مؤلفۃ القلوب کو عنایت فرمایا تاکہ وہ اسلام سے مالوف و مانوس ہو جائیں تو انصار میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کچھ نہیں دیتے اور جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں انہیں سب کچھ دیے جا رہے ہیں ؟ جب یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ایک کمرے میں جمع کیا اور فرمایا: کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟ انہوں نے عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہ! ہم میں سے نوجوانوں اور خفیف عقول والوں، کم سمجھ والوں نے ایسی باتیں کی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بکریاں، بھیڑیں،اونٹ اور درہم و دینار لے کر گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھروں میں جاؤ؟ ’’سب نے کہا: یا رسول اللہ! ہم راضی ہیں ہم راضی ہیں۔( صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم یعطي المؤلفة قلوبهم، حدیث:۳۱۴۷۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم، حدیث:۱۰۵۹۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ مال مانگا کہ میں نے جنگ بدر میں اپنا بھی اور عقیل کا بھی فدیہ دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بحرین سے بڑا مال آیا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہاں سے جتنے دراہم اٹھا سکتے ہو لے جائیے‘‘ انہوں نے بہت سے دراہم کپڑے میں ڈال لیے حتیٰ کہ خود نہ اٹھا سکے تو کہنے لگے مجھے اٹھوا دو۔ فرمایا: ’’نہیں، بلکہ جتنا خود اٹھا سکو لے جاؤ‘‘ انہوں نے کچھ درہم کم کیے پھر بھی نہ اٹھا سکے تو پھر اٹھوانے کا کہا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ جتنا خود اٹھا سکو لے جاؤ‘‘ انہوں نے کچھ درہم مزید کم کیے اور اٹھا کر مسجد سے باہر لے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کی حرص کی وجہ سے پیچھے سے دیکھتے رہے۔( صحیح مسلم، کتاب الجزیة، باب ما أقطع النبی صلى الله علیه وسلم من البحرین، حدیث:۳۱۶۵۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نہایت اعلیٰ سخی نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرآن کریم کا عملی نمونہ تھے جس میں ہے کہ ﴿وَ مَآ أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗ وَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾(السبا:۳۹) یعنی جو بھی تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر رزق دینے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرماتے تھے ((أَنْفِقْ یَا بِلَالُ! وَلَا تَخْشَی مِنْ ذِیْ الْعَرَشِ إِقْلَالًا)) (معجم کبیر طبراني (۱۰۲۰)۔ مسند البزار (الکشف:۱۹۷۸)۔)’’اے بلال! خرچ کرو، اور عرش والے کے فقیر کر دینے سے نہ ڈرنا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ((لَا تُوْعِيْ فَیُوْعِيْ اللّٰهُ عَلَیْكِ وَلَا تُوْکِيْ فَیُوْکِي اللّٰهُ عَلَیْكِ)) (صحیح بخاري، کتاب الزکاة، باب التحریض علی الصدقة، حدیث:۱۴۳۳، ۱۴۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب في الحث علی الإنفاق حدیث:۱۰۲۹۔)’’گن گن کر نہ دو، پھر اللہ تعالیٰ بھی (اجر و ثواب) گن گن کر دے گا، ذخیرہ نہ کرو اور جو کچھ ہاتھ میں ہے اس کو نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے روک لے گا‘‘ نیز فرمایا: ہر روز صبح صبح دو فرشتے منادی کرتے ہیں ایک کہتا ہے: اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور دے دے، اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ بند کر نے والے اور روکنے والے کو تباہی و بربادی نصیب فرما۔( صحیح بخاری، کتاب الزکاة، باب قول اللّٰه تعالیٰ ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی ...﴾حدیث: ۲۴۴۳۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب في المنفق والممسك، حدیث: ۱۰۱۰۔)