كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنِيْ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ الْحُسَيْنُ: سَأَلْتُ أَبِي، عَنْ سِيرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُلَسَائِهِ، فَقَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَائِمَ الْبِشْرِ، سَهْلَ الْخُلُقِ، لَيِّنَ الْجَانِبِ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا صَخَّابٍ وَلَا فَحَّاشٍ، وَلَا عَيَّابٍ وَلَا مُشَاحٍ، يَتَغَافَلُ عَمَّا لَا يَشْتَهِي، وَلَا يُؤْيِسُ مِنْهُ رَاجِيهِ وَلَا يُخَيَّبُ فِيهِ، قَدْ تَرَكَ نَفْسَهُ مِنْ ثَلَاثٍ: الْمِرَاءِ وَالْإِكْثَارِ وَمَا لَا يَعْنِيهِ، وَتَرَكَ النَّاسَ مِنْ ثَلَاثٍ: كَانَ لَا يَذُمُّ أَحَدًا وَلَا يَعِيبُهُ، وَلَا يَطْلُبُ عَوْرتَهُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا فِيمَا رَجَا ثَوَابَهُ، وَإِذَا تَكَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرُ، فَإِذَا سَكَتَ تَكَلَّمُوا لَا يَتَنَازَعُونَ عِنْدَهُ الْحَدِيثَ، وَمَنْ تَكَلَّمَ عِنْدَهُ أَنْصَتُوا لَهُ حَتَّى يَفْرُغَ، حَدِيثُهُمْ عِنْدَهُ حَدِيثُ أَوَّلِهِمْ، يَضْحَكُ مِمَّا يَضْحَكُونَ مِنْهُ، وَيَتَعَجَّبُ مِمَّا يَتَعَجَّبُونَ مِنْهُ، وَيَصْبِرُ لِلْغَرِيبِ عَلَى الْجَفْوَةِ فِي مَنْطِقِهِ وَمَسْأَلَتِهِ حَتَّى إِنْ كَانَ أَصْحَابُهُ لَيَسْتَجْلِبُونَهُمْ وَيَقُولُ: إِذَا رَأَيْتُمْ طَالِبَ حَاجَةٍ يِطْلُبُهَا فَأَرْفِدُوهُ، وَلَا يَقْبَلُ الثَّنَاءَ إِلَّا مِنْ مُكَافِئٍ وَلَا يَقْطَعُ عَلَى أَحَدٍ حَدِيثَهُ حَتَّى يَجُوزَ فَيَقْطَعُهُ بِنَهْيٍ أَوْ قِيَامٍ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان
’’سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں میں نے اپنے والد گرامی (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم جلیس ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ اور سلوک کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہنس مکھ ہوتے، نرم اخلاق والے تھے، نرم طبیعت تھے، ترش رو اور سخت دل نہ تھے، نہ شور برپا کرتے، نہ بے ہودہ باتیں کرتے، نہ ہی کسی کو عیب لگاتے کرنے والے سخت کلام اور نہ ہی تند خو تھے، نہ تو چلانے والے اور نہ ہی فحش گو اور نہ ہی بخل یا حرص رکھنے والے تھے، جس چیز کی چاہت اور طلب نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص کوئی امید رکھتا اسے مایوس نہ کرتے، اور نہ اسے ناکام لوٹاتے، اپنی ذات مبارک کو تین چیزوں سے پاک رکھا: جھگڑے سے، تکبر سے اور لا یعنی باتوں سے، اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا: نہ کسی کی مذمت کرتے اور نہ ہی کسی کا عیب بیان کرتے تھے اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی جستجو کرتے تھے کہ جس کے واقع ہونے سے عار آتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی گفتگو کرتے جس سے ثواب کی امید ہوتی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو اہل مجلس اپنی گردنیں یوں جھکا لیتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں، اور جب آپ گفتگو کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرتے تو تب صحابہ کرام کلام کرتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی بات میں جھگڑا نہ کرتے، اور جب کوئی گفتگو کرتا تو اہلِ مجلس خاموشی سے اس کی گفتگو سنتے، حتی کہ وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام کی گفتگو ایسے ہوتی جیسا کہ ابھی پہلے شخص کی گفتگو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس بات سے مسکراتے جس سے صحابۂ کرام مسکراتے اور جس بات سے سب تعجب کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے تعجب فرماتے، اجنبی اور مسافر کی بد کلامی اور سوال میں بدتمیزی اور ترش روئی پر صبر کرتے، حتیٰ کہ صحابۂ کرام (اس حسنِ سلوک کو دیکھ کر) خود ایسے سوال کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لے آتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے کہ جب تم کسی حاجتمند کو دیکھو تو اس کی مدد کیا کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ روی اختیار کرنے والے سے مدح قبول فرماتے، اور کسی کی گفتگو کو درمیان میں نہ کاٹتے حتیٰ کہ وہ حد سے تجاوز نہ کر جاتا، پس اسے منع فرما کر بات ختم فرما دیتے یا اٹھ کر چلے جاتے۔‘‘
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس سے قبل اسی سند سے بالفاظ مختلف حدیث نمبر ۸ میں یہ روایت مع تخریج و فوائد گذر چکی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور انکساری کی باب میں ساتویں نمبر میں گذر چکی ہے۔