كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْتَصِرًا مِنْ مَظْلَمَةٍ ظُلِمَهَا قَطُّ مَا لَمْ يُنْتَهَكْ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْءٌ، فَإِذَا انْتُهِكَ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ شَيْءٌ كَانَ مِنْ أَشَدِّهِمْ فِي ذَلِكَ غَضَبًا، وَمَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ مَأْثَمًا))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان
’’ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ جب کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ظلم و زیادتی ہوئی ہو تو اس کا انتقام اور بدلہ لیتے ہوئے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا مگر جب اللہ تعالیٰ کے محارم کی ہتک اور بے حرمتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ غضب ناک ہو جاتے، اور جب بھی دو باتوں میں اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان بات پسند کر لی بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔‘‘
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے والی یہودیہ عورت پر اپنی ذات کے لیے حد قائم نہیں، البتہ جب اس زہر سے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بھی بعض لوگ متاثر ہوئے تو تب اس عورت پر حد قائم کی گئی اور اس کو قتل کیا گیا۔( سنن أبي داود، کتاب الدیات، باب فیمن سقی رجلا سمًّا أو أطعمه، حدیث:۴۵۱۰، ۴۵۱۱۔)
لیکن جب اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کوئی حد توڑی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غضب ناک ہو جاتے اور اس کا انتقام لینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز بھی مانع نہ ہوتی، اسی طرح کسی آدمی کا حق بھی کسی کو غصب نہ کرنے دیتے۔
اگر کوئی آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے تو جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو معاف نہ کریں وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو من حیث الرسول کوئی اذیت دے تو اس لحاظ سے موذیٔ رسول بہت بڑی سزا کا حقدار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(التوبة: ۶۱)
نیز فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا﴾( الاحزاب: ۵۷)
اگر کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے تو ا سکی سزا قتل ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ لکھی ہے جو قابلِ مطالعہ ہے۔ بہرحال ایسے بدبخت شخص کی سزا قتل ہے اور اس میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
تخریج :
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلى الله عليه وسلم (۶؍۳۵۶۰)، و کتاب الأدب (۱۰؍۶۱۲۶) وکتاب الحدود (۱۲؍۶۷۸۶)، وصحیح مسلم، کتاب الفضائل (۴؍۷۷ برقم ۱۸۱۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے والی یہودیہ عورت پر اپنی ذات کے لیے حد قائم نہیں، البتہ جب اس زہر سے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بھی بعض لوگ متاثر ہوئے تو تب اس عورت پر حد قائم کی گئی اور اس کو قتل کیا گیا۔( سنن أبي داود، کتاب الدیات، باب فیمن سقی رجلا سمًّا أو أطعمه، حدیث:۴۵۱۰، ۴۵۱۱۔)
لیکن جب اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کوئی حد توڑی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غضب ناک ہو جاتے اور اس کا انتقام لینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز بھی مانع نہ ہوتی، اسی طرح کسی آدمی کا حق بھی کسی کو غصب نہ کرنے دیتے۔
اگر کوئی آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے تو جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو معاف نہ کریں وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو من حیث الرسول کوئی اذیت دے تو اس لحاظ سے موذیٔ رسول بہت بڑی سزا کا حقدار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(التوبة: ۶۱)
نیز فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا﴾( الاحزاب: ۵۷)
اگر کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے تو ا سکی سزا قتل ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ لکھی ہے جو قابلِ مطالعہ ہے۔ بہرحال ایسے بدبخت شخص کی سزا قتل ہے اور اس میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔