شمائل ترمذی - حدیث 344

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا ضَرَبَ خَادِمًا أَوِ امْرَأَةً))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 344

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان ’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا سوائے اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے، اور نہ کبھی خادم کو مارا اور نہ بیوی کو مارا تھا۔‘‘
تشریح : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی آدمی کو نہیں مارا، البتہ میدانِ جہاد میں ایسا فرماتے اور کفار کو قتل کرتے جیسا کہ ابی بن خلف کو غزوۂ احد میں قتل کیا تھا۔( صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حدیث:۳۶۳۲،۳۹۵۰۔) اسی طرح حدود و تعزیرات یا دیگر حقوق اللہ میں ضرور احکامِ الٰہی کی ادائیگی کرتے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ سب سے بدبخت وہ شخص ہے جس کو نبی قتل کرے یا جو نبی کو قتل کرے۔( مسند أحمد (۱؍۴۰۷)۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خادم کو یا کسی عورت کو نہیں مارا، اوپر والی عبارت میں یہ بھی شامل تھے مگر پھر بھی ان کو الگ ذکر کیا کیونکہ زیادہ تر گھریلو جھگڑے پیش آتے رہتے ہیں اور عموما ان دونوں کو مارنا پیش آجاتا ہے اور کبھی بطور تادیب انہیں کچھ سزا دینا ہی پڑتا ہے تو اس صورت میں اگرچہ یہ جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ نہ مارا جائے۔اور سرزنش پر اکتفا کیا جائے، یا معاف کر دیا جائے۔ اولاد کو بطور تادیب مارنا زیادہ بہتر ہے وہاں معاف کرنا بہتر نہیں کیونکہ اولاد کو کسی نفسانی جوش کی وجہ سے نہیں بلکہ نہایت ضروری ادب سکھانے کے لیے مارا جاتا ہے۔ البتہ بیوی اور خادم کو مارنے میں کبھی نفس کا بھی لحاظ ہو جاتا ہے اس لیے یہاں معافی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
تخریج : صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب مباعدته للأثام (۴؍۷۹ برقم ۱۸۱۴)، سنن ابن ماجة، کتاب النکاح (۱؍۱۹۸۴)، سنن دارمي، کتاب النکاح (۲؍۲۲۱۸)، مسند أحمد بن حنبل (۶؍۳۲،۲۲۹، ۲۳۲)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی آدمی کو نہیں مارا، البتہ میدانِ جہاد میں ایسا فرماتے اور کفار کو قتل کرتے جیسا کہ ابی بن خلف کو غزوۂ احد میں قتل کیا تھا۔( صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حدیث:۳۶۳۲،۳۹۵۰۔) اسی طرح حدود و تعزیرات یا دیگر حقوق اللہ میں ضرور احکامِ الٰہی کی ادائیگی کرتے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ سب سے بدبخت وہ شخص ہے جس کو نبی قتل کرے یا جو نبی کو قتل کرے۔( مسند أحمد (۱؍۴۰۷)۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خادم کو یا کسی عورت کو نہیں مارا، اوپر والی عبارت میں یہ بھی شامل تھے مگر پھر بھی ان کو الگ ذکر کیا کیونکہ زیادہ تر گھریلو جھگڑے پیش آتے رہتے ہیں اور عموما ان دونوں کو مارنا پیش آجاتا ہے اور کبھی بطور تادیب انہیں کچھ سزا دینا ہی پڑتا ہے تو اس صورت میں اگرچہ یہ جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ نہ مارا جائے۔اور سرزنش پر اکتفا کیا جائے، یا معاف کر دیا جائے۔ اولاد کو بطور تادیب مارنا زیادہ بہتر ہے وہاں معاف کرنا بہتر نہیں کیونکہ اولاد کو کسی نفسانی جوش کی وجہ سے نہیں بلکہ نہایت ضروری ادب سکھانے کے لیے مارا جاتا ہے۔ البتہ بیوی اور خادم کو مارنے میں کبھی نفس کا بھی لحاظ ہو جاتا ہے اس لیے یہاں معافی بہتر ہے۔ واللہ اعلم