شمائل ترمذی - حدیث 343

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ وَاسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: ((لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِىءُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 343

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان ’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعاً بد گو تھے اور نہ ہی تکلفاً بد گو تھے، نہ بازاروں میں شور کرتے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے لیکن در گذر فرما دیتے اور اعراض فرما دیتے تھے۔‘‘
تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا بیان: ٭ ((لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا)): آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہودہ گو اور بری بات کا اظہار کرنے والے نہیں تھے۔ یعنی نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عادتاً کوئی فحش بات یا عمل کرتے اور نہ ہی تکلفاً، بلکہ بے ہودہ اور فحش امر تو دور کی بات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر کبھی فضول بات بھی نہیں آئی۔ ٭ ((وَلَا صَخَّابًا فِيْ الْأَسْوَاقِ)): اور بازاروں میں بالکل شور و شغب نہ کرتے۔ صَخَّابِ اسی طرح مبالغہ ہے جس طرح ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ﴾کہ ’’آپ کا پروردگار بندوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا‘‘ یہاں بھی یہی معنی ہونگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل شور نہ کرتے۔ یہاں پر بازاروں کی قید اتفاقاً لگائی گئی ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ بھی شور کرنے والے نہیں تھے۔ بازاروں میں چونکہ شور ہی شور ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ وہاں پر بھی شور نہیں کرتے تھے تو دیگر مقامات میں بطریق اولیٰ نہیں کرتے تھے۔ ٭ ((وَلَا یَجْزِيْ بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ)) : اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے برائی کے بدلے میں جو بدلے کا عمل ہوتا ہے درحقیقت وہ برائی نہیں ہوتی بلکہ مشاکلت اور دیکھنے میں ایک جیسی ہونے کی وجہ سے اس کو برائی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَجَزَآءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلٰی اللّٰهِ﴾یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے تو جو معاف کر دے اور درستی کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔ ٭ ((وَلٰکِنْ یَعْفُوْ وَیَصْفَحُ)): بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاف کرتے اور درگذر فرماتے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل سے معاف کر دیتے اور بظاہر بھی درگذر فرماتے، قرآن کریم میں ہے: ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ﴾اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں معاف کر دیجیے اور ان سے درگذر کر دیجیے۔ اخلاق عالیہ کی نہایت نادر مثال: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے محارب دشمنوں کو اس وقت معاف کر دینا ہے جبکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کر دیے اور چہرہ مبارک کو زخمی کر دیا۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ بات نہایت گراں گذری تو انہوں نے کہا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف بددعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا نہیں بنایا گیا بلکہ مجھے داعی اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اے اللہ! میری قوم کو معاف کردے۔ اے الہ! میری قوم کو ہدایت دے دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے۔ (شعب الإیمان للبیهقي (۱۴۴۷) عن عبد اللّٰه بن عبید بن عمیر مرسلاً۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی زیادتی کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا۔ فتح مکہ اور اہل طائف کے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفوو درگذر کے روشن باب ہیں بلکہ سیرت نبوی (علی صاحبہا الصلاة و السلام) ایسے درخشاں ابواب سے بھری پڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بلند پایہ ہیں : امام طبرانی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی رحمہ اللہ نے یہود کے ایک بہت بڑے عالم کا واقعہ نقل کیا ہے جس کے ساتھی مسلمان ہو گئے اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے تمام دلائل مجھ پر واضح اور روشن ہو گئے۔ میں نے وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دیکھ لیے اور پہچان لیے تھے مگر دو نشان باقی تھے جن کے متعلق مجھے کوئی خبر نہ مل سکی تو میں ان کو آزما نہ سکا۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ، حلم اور بردباری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ پر غالب آجاتی ہے اور دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی بھی زیادہ جہالت سے کوئی پیش آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ اور بردباری اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ تو میں موقع تلاش کرتا رہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے میل جول رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھ سکوں۔ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کھجوریں ادھار پر لے لیں اور قیمت ادا کر دی۔ پھر وقت مقررہ آنے سے دو تین دن پہلے میں آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور چادر کے اکٹھا ہونے کی جگہ سے پکڑ لیا، اور سخت نظر سے دیکھا، پھر کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا تو میرا حق ادا نہیں کرے گا؟ عبدالمطلب کی اولاد! تم اسی طرح ادائیگی حقوق میں ٹال مٹول کرتے رہتے ہو۔ حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) قریب کھڑے تھے۔ فرمانے لگے: اے اللہ کے دشمن! کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ کہہ رہا ہے جو میں سن رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں تجھے تلوار مار کر ختم کر دیتا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کو نہایت سکون اور نرمی سے مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمر! میں اور یہ تیرے اس رویہ کے علاوہ ایک دوسرے طریقے کے محتاج تھے تیرا یہ کام تھا کہ تو مجھے اچھی ادائیگی کا کہتا اور اس کو اچھی طرح تقاضا کرنے کا کہتا۔ جاؤ اس کو اس کا حق ادا کرو اوراسے اپنے جھگڑے کے عوض میں بیس صاع زیادہ دینا۔‘‘ وہ یہودی عالم کہنے لگا: اے عمر! میں نے تمام علاماتِ نبوت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرہ مبارک میں دیکھ لی تھیں صرف دو رہ گئی تھیں تو اب میں نے ان دو صفات کو بھی آزما لیا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں اور اب میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے سچے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کا اقرار کرتا ہوں اور اسی پر راضی ہوں۔(مستدرك حاکم (۳؍۶۰۴۔۶۰۵)۔ صحیح ابن حبان (۲۲۸)۔ معجم کبیر طبراني(۵۱۴۷)۔ سنن کبری بیهقي (۶؍۲۷۸)۔) خلق عظیم کا ایک اور واقعہ: سنن ابی داؤد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں اپنی چادر ڈال کر اپنی طرف کھینچا اور اتنا کھینچا کہ اس کی سخت چادر کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر پڑ گئے۔ وہ کہنے لگا میرے ان اونٹوں پر غلہ لاد کر دو تم اپنے یا اپنے باپ کے مال سے تو نہیں دو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ فرمایا: نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور میں تجھے غلہ نہیں دوں گا جب تک تجھ سے قصاص نہ لے لوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلا کر فرمایا: اس کے دونوں اونٹوں پر غلہ لاد دو، ایک پر کھجوریں ڈال دو اور دوسرے پر جو ڈال دو۔( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في الحلم وأخلاق النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۴۷۷۵ وإسناده ضعیف۔ سند میں ہلال راوی مشہور (مجہول) ہے۔)صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اس نے آپ کو کھینچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف توجہ فرمائی اور مسکرانے لگے اور پھر دے دینے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب البرود والحبر، حدیث:۵۸۰۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة حدیث:۱۰۵۷۔)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کی عکاسی قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ کر رہی ہے۔ ﴿إِنَّكَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾کہ ’’آپ یقیناً بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔‘‘ مفسرِ قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خلق پر ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم یا دین اسلام میں دیا ہے۔ یا اس سے مراد وہ تہذیب و شائستگی، نرمی اور شفقت، امانت و صداقت، حلم و کرم اور دیگر اخلاقی خوبیاں ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی ممتاز تھے اور نبوت کے بعد ان میں مزید بلندی اور وسعت آئی، اسی لیے جب امیر المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: ((کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ)) (صحیح مسلم، کتاب المسافرین، باب جامع صلاة اللیل ومن نام عنه أومرض) ام المومنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب خلق عظیم کے مذکورہ دونوں مفہوموں پر حاوی ہے۔ (دیکھیے: تفسیر أحسن البیان۔سورۃ القلم بتصرف) نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ﴾
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب البروالصلة، باب ماجاء في خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم (۴؍۲۰۱۶)، مسند الطیالسي (ص:۲۱۴) مسند أحمد بن حنبل (۶؍۱۷۴، ۲۳۶،۳۴۶)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا بیان: ٭ ((لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا)): آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہودہ گو اور بری بات کا اظہار کرنے والے نہیں تھے۔ یعنی نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عادتاً کوئی فحش بات یا عمل کرتے اور نہ ہی تکلفاً، بلکہ بے ہودہ اور فحش امر تو دور کی بات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر کبھی فضول بات بھی نہیں آئی۔ ٭ ((وَلَا صَخَّابًا فِيْ الْأَسْوَاقِ)): اور بازاروں میں بالکل شور و شغب نہ کرتے۔ صَخَّابِ اسی طرح مبالغہ ہے جس طرح ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ﴾کہ ’’آپ کا پروردگار بندوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا‘‘ یہاں بھی یہی معنی ہونگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل شور نہ کرتے۔ یہاں پر بازاروں کی قید اتفاقاً لگائی گئی ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ بھی شور کرنے والے نہیں تھے۔ بازاروں میں چونکہ شور ہی شور ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ وہاں پر بھی شور نہیں کرتے تھے تو دیگر مقامات میں بطریق اولیٰ نہیں کرتے تھے۔ ٭ ((وَلَا یَجْزِيْ بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ)) : اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے برائی کے بدلے میں جو بدلے کا عمل ہوتا ہے درحقیقت وہ برائی نہیں ہوتی بلکہ مشاکلت اور دیکھنے میں ایک جیسی ہونے کی وجہ سے اس کو برائی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَجَزَآءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلٰی اللّٰهِ﴾یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے تو جو معاف کر دے اور درستی کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔ ٭ ((وَلٰکِنْ یَعْفُوْ وَیَصْفَحُ)): بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاف کرتے اور درگذر فرماتے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل سے معاف کر دیتے اور بظاہر بھی درگذر فرماتے، قرآن کریم میں ہے: ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ﴾اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں معاف کر دیجیے اور ان سے درگذر کر دیجیے۔ اخلاق عالیہ کی نہایت نادر مثال: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے محارب دشمنوں کو اس وقت معاف کر دینا ہے جبکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کر دیے اور چہرہ مبارک کو زخمی کر دیا۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ بات نہایت گراں گذری تو انہوں نے کہا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف بددعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا نہیں بنایا گیا بلکہ مجھے داعی اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اے اللہ! میری قوم کو معاف کردے۔ اے الہ! میری قوم کو ہدایت دے دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے۔ (شعب الإیمان للبیهقي (۱۴۴۷) عن عبد اللّٰه بن عبید بن عمیر مرسلاً۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی زیادتی کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا۔ فتح مکہ اور اہل طائف کے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفوو درگذر کے روشن باب ہیں بلکہ سیرت نبوی (علی صاحبہا الصلاة و السلام) ایسے درخشاں ابواب سے بھری پڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بلند پایہ ہیں : امام طبرانی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی رحمہ اللہ نے یہود کے ایک بہت بڑے عالم کا واقعہ نقل کیا ہے جس کے ساتھی مسلمان ہو گئے اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے تمام دلائل مجھ پر واضح اور روشن ہو گئے۔ میں نے وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دیکھ لیے اور پہچان لیے تھے مگر دو نشان باقی تھے جن کے متعلق مجھے کوئی خبر نہ مل سکی تو میں ان کو آزما نہ سکا۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ، حلم اور بردباری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ پر غالب آجاتی ہے اور دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی بھی زیادہ جہالت سے کوئی پیش آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ اور بردباری اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ تو میں موقع تلاش کرتا رہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے میل جول رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھ سکوں۔ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کھجوریں ادھار پر لے لیں اور قیمت ادا کر دی۔ پھر وقت مقررہ آنے سے دو تین دن پہلے میں آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور چادر کے اکٹھا ہونے کی جگہ سے پکڑ لیا، اور سخت نظر سے دیکھا، پھر کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا تو میرا حق ادا نہیں کرے گا؟ عبدالمطلب کی اولاد! تم اسی طرح ادائیگی حقوق میں ٹال مٹول کرتے رہتے ہو۔ حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) قریب کھڑے تھے۔ فرمانے لگے: اے اللہ کے دشمن! کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ کہہ رہا ہے جو میں سن رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں تجھے تلوار مار کر ختم کر دیتا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کو نہایت سکون اور نرمی سے مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمر! میں اور یہ تیرے اس رویہ کے علاوہ ایک دوسرے طریقے کے محتاج تھے تیرا یہ کام تھا کہ تو مجھے اچھی ادائیگی کا کہتا اور اس کو اچھی طرح تقاضا کرنے کا کہتا۔ جاؤ اس کو اس کا حق ادا کرو اوراسے اپنے جھگڑے کے عوض میں بیس صاع زیادہ دینا۔‘‘ وہ یہودی عالم کہنے لگا: اے عمر! میں نے تمام علاماتِ نبوت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرہ مبارک میں دیکھ لی تھیں صرف دو رہ گئی تھیں تو اب میں نے ان دو صفات کو بھی آزما لیا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں اور اب میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے سچے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کا اقرار کرتا ہوں اور اسی پر راضی ہوں۔(مستدرك حاکم (۳؍۶۰۴۔۶۰۵)۔ صحیح ابن حبان (۲۲۸)۔ معجم کبیر طبراني(۵۱۴۷)۔ سنن کبری بیهقي (۶؍۲۷۸)۔) خلق عظیم کا ایک اور واقعہ: سنن ابی داؤد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں اپنی چادر ڈال کر اپنی طرف کھینچا اور اتنا کھینچا کہ اس کی سخت چادر کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر پڑ گئے۔ وہ کہنے لگا میرے ان اونٹوں پر غلہ لاد کر دو تم اپنے یا اپنے باپ کے مال سے تو نہیں دو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ فرمایا: نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور میں تجھے غلہ نہیں دوں گا جب تک تجھ سے قصاص نہ لے لوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلا کر فرمایا: اس کے دونوں اونٹوں پر غلہ لاد دو، ایک پر کھجوریں ڈال دو اور دوسرے پر جو ڈال دو۔( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في الحلم وأخلاق النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۴۷۷۵ وإسناده ضعیف۔ سند میں ہلال راوی مشہور (مجہول) ہے۔)صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اس نے آپ کو کھینچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف توجہ فرمائی اور مسکرانے لگے اور پھر دے دینے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب البرود والحبر، حدیث:۵۸۰۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة حدیث:۱۰۵۷۔)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کی عکاسی قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ کر رہی ہے۔ ﴿إِنَّكَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾کہ ’’آپ یقیناً بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔‘‘ مفسرِ قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خلق پر ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم یا دین اسلام میں دیا ہے۔ یا اس سے مراد وہ تہذیب و شائستگی، نرمی اور شفقت، امانت و صداقت، حلم و کرم اور دیگر اخلاقی خوبیاں ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی ممتاز تھے اور نبوت کے بعد ان میں مزید بلندی اور وسعت آئی، اسی لیے جب امیر المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: ((کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ)) (صحیح مسلم، کتاب المسافرین، باب جامع صلاة اللیل ومن نام عنه أومرض) ام المومنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب خلق عظیم کے مذکورہ دونوں مفہوموں پر حاوی ہے۔ (دیکھیے: تفسیر أحسن البیان۔سورۃ القلم بتصرف) نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ﴾