كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَهُ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ لِمَ تَرَكْتَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، وَلَا مَسَسْتُ خَزًّا وَلَا حَرِيرًا وَلَا شَيْئًا كَانَ أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا شَمَمْتُ مِسْكًا قَطُّ وَلَا عِطْرًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہنے کا شرف دس سال تک حاصل رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں کہا اور نہ کسی کام کے کرنے میں یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں ایسا کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی اعتبار سے تمام انسانوں سے بہتر تھے اور میں نے کبھی کوئی ریشم اور ریشمی کپڑا اور کوئی نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم ہو۔ اور میں نے کبھی بھی کسی قسم کا کستوری اور عطر ایسا نہیں سونگھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے زیادہ خوشبودار ہو۔‘‘
تشریح :
اخلاقِ عالیہ کی بلندی کا کمال:
حدیث الباب میں رسول اللہ کے اخلاق ِ عالیہ کی بلندی کا کمال مذکور ہے نیز خادم کی خاطر داری کا خیال رکھنا، کمالِ برداشت اور حوصلہ، قضاء و قدر کا یقین رکھنا مذکور ہے۔ یہ تمام امور فضائل اخلاق میں سے ہیں جن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدرجہ اتم متصف تھے۔ یاد رہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ پر عدمِ اعتراض ان امور میں تھا جو کہ خدمت اور آداب سے متعلق تھے نہ کہ ان امور میں جو تکالیفِ شرعیہ سے متعلق ہیں کیونکہ ان پر ترکِ اعتراض جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ دس سال تک خدمتِ اقدس میں رہ کر خلافِ شرع کسی امر کے مرتکب نہیں ہوئے کیونکہ خلاف شرع کام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اور عدم اعتراض ممکن ہی نہ تھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح خلقی اعتبار سے سب سے اعلیٰ وارفع صاحبِ سیرت تھے اسی طرح خلقت کے اعتبار سے بھی انتہائی اعلیٰ و ارفع اور صاحبِ صورت تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ایک عمدہ اور اعلیٰ درجہ کی خوشبو تھا
امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ اطہر سے آنے والی خوشبو کسی عطر یا مشک وغیرہ کے باعث نہیں تھی بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ اقدس کی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ خاکی طیب و مطیب تھا جس راستہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذر جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بآسانی اس راستہ پر چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر لیتا، چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ کے بازاروں میں سے کسی بازار کو تشریف لے جاتے تو صحابۂ کرام رضی الله عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو پاکر اسی راستہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیتے اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے سے گذرے ہیں۔ (مسند البزار (الکشف:۲۴۷۸)۔ مسند أبي یعلی (۳۰۴۴)۔)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا، تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ایک شیشی لائیں اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک جمع کرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جمع کرنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواباً عرض کیا: ((نَجْعَلُهُ فِيْ طِیْبِنَا وَهُوَ أَطْیَبُ الطِّیْبِ)) ’’ہم اس کو اپنی خوشبو میں ملائیں گے کیونکہ یہ اعلیٰ درجے کی خوشبو ہے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب عرقه صلى الله علیه وسلم والتبرک بہ، حدیث:۲۳۳۱۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی سے مصافحہ کرتے تو اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے سارا دن خوشبو آتی رہتی کہ اس نے دستِ مبارک کو چھونے کی سعادت حاصل کی ہوئی ہے۔ اور اگر کسی بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دیتے تو وہ بچہ دوسرے بچوں سے پہچانا جاتا، سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ’’میں نے ظہر کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر جانے کے لیے مسجد سے نکلے تو سامنے سے کئی بچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی ایک گال پر دستِ شفقت پھیرا، جب کہ میرے دونوں رخساروں پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو کو پایا، وہ ایسی خوشبو تھی گویا کہ ابھی کسی عطر فروش کی ڈبیہ سے ہاتھ نکال کر لگائی گئی ہو۔( مسند أبي یعلی (۶۱۶۵)۔ معجم الأوسط طبراني (۳۰۰۵)۔)
مسند ابی یعلی الموصلی، المعجم الاوسط للطبرانی وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا تعاون فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میرے پاس تو اس وقت کچھ نہیں مگر ہاں ایک شیشی لاؤ۔‘‘ وہ لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بازوؤں سے پسینہ مبارک لے کر اس شیشی میں ڈالا حتیٰ کہ وہ بھر گئی، پھر فرمایا: ’’یہ لے جاؤ، اور اپنی بیٹی سے کہنا کہ اس کو بطور خوشبو استعمال کرے چنانچہ جب کبھی وہ اس پسینہ مبارک کو بطور خوشبو استعمال کرتی تو مدینہ منورہ کے تمام گھر اس خوشبو سے مہک جاتے، اسی وجہ سے اس گھر کا نام ہی خوشبو لگانے والوں کا گھر پڑ گیا۔( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب ریحه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۲۹۔) ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی لَهُ))
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب البر والصلة (۴؍۲۰۱۵)، شرح السنة للبغوي (۷؍۳۵۵۸) امام مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کا آخری حصہ تخریج کیا ہے اور صحیحین میں اس روایت کا ابتدائی حصہ منقول ہے۔ دیکھیے صحیح مسلم، کتاب الفضائل (۴؍۸۱ برقم ۱۸۱۴)، صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء (۱۰؍۶۰۳۸)۔
اخلاقِ عالیہ کی بلندی کا کمال:
حدیث الباب میں رسول اللہ کے اخلاق ِ عالیہ کی بلندی کا کمال مذکور ہے نیز خادم کی خاطر داری کا خیال رکھنا، کمالِ برداشت اور حوصلہ، قضاء و قدر کا یقین رکھنا مذکور ہے۔ یہ تمام امور فضائل اخلاق میں سے ہیں جن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدرجہ اتم متصف تھے۔ یاد رہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ پر عدمِ اعتراض ان امور میں تھا جو کہ خدمت اور آداب سے متعلق تھے نہ کہ ان امور میں جو تکالیفِ شرعیہ سے متعلق ہیں کیونکہ ان پر ترکِ اعتراض جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ دس سال تک خدمتِ اقدس میں رہ کر خلافِ شرع کسی امر کے مرتکب نہیں ہوئے کیونکہ خلاف شرع کام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اور عدم اعتراض ممکن ہی نہ تھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح خلقی اعتبار سے سب سے اعلیٰ وارفع صاحبِ سیرت تھے اسی طرح خلقت کے اعتبار سے بھی انتہائی اعلیٰ و ارفع اور صاحبِ صورت تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ایک عمدہ اور اعلیٰ درجہ کی خوشبو تھا
امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ اطہر سے آنے والی خوشبو کسی عطر یا مشک وغیرہ کے باعث نہیں تھی بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ اقدس کی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ خاکی طیب و مطیب تھا جس راستہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذر جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بآسانی اس راستہ پر چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر لیتا، چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ کے بازاروں میں سے کسی بازار کو تشریف لے جاتے تو صحابۂ کرام رضی الله عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو پاکر اسی راستہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیتے اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے سے گذرے ہیں۔ (مسند البزار (الکشف:۲۴۷۸)۔ مسند أبي یعلی (۳۰۴۴)۔)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا، تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ایک شیشی لائیں اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک جمع کرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جمع کرنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواباً عرض کیا: ((نَجْعَلُهُ فِيْ طِیْبِنَا وَهُوَ أَطْیَبُ الطِّیْبِ)) ’’ہم اس کو اپنی خوشبو میں ملائیں گے کیونکہ یہ اعلیٰ درجے کی خوشبو ہے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب عرقه صلى الله علیه وسلم والتبرک بہ، حدیث:۲۳۳۱۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی سے مصافحہ کرتے تو اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے سارا دن خوشبو آتی رہتی کہ اس نے دستِ مبارک کو چھونے کی سعادت حاصل کی ہوئی ہے۔ اور اگر کسی بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دیتے تو وہ بچہ دوسرے بچوں سے پہچانا جاتا، سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ’’میں نے ظہر کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر جانے کے لیے مسجد سے نکلے تو سامنے سے کئی بچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی ایک گال پر دستِ شفقت پھیرا، جب کہ میرے دونوں رخساروں پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو کو پایا، وہ ایسی خوشبو تھی گویا کہ ابھی کسی عطر فروش کی ڈبیہ سے ہاتھ نکال کر لگائی گئی ہو۔( مسند أبي یعلی (۶۱۶۵)۔ معجم الأوسط طبراني (۳۰۰۵)۔)
مسند ابی یعلی الموصلی، المعجم الاوسط للطبرانی وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا تعاون فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میرے پاس تو اس وقت کچھ نہیں مگر ہاں ایک شیشی لاؤ۔‘‘ وہ لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بازوؤں سے پسینہ مبارک لے کر اس شیشی میں ڈالا حتیٰ کہ وہ بھر گئی، پھر فرمایا: ’’یہ لے جاؤ، اور اپنی بیٹی سے کہنا کہ اس کو بطور خوشبو استعمال کرے چنانچہ جب کبھی وہ اس پسینہ مبارک کو بطور خوشبو استعمال کرتی تو مدینہ منورہ کے تمام گھر اس خوشبو سے مہک جاتے، اسی وجہ سے اس گھر کا نام ہی خوشبو لگانے والوں کا گھر پڑ گیا۔( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب ریحه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۲۹۔) ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی لَهُ))