شمائل ترمذی - حدیث 340

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَى أَشَرِّ الْقَوْمِ يَتَأَلَّفُهُمْ بِذَلِكَ فَكَانَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَيَّ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي خَيْرُ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: ((أَبُو بَكْرٍ)) فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ؟ فَقَالَ: ((عُمَرُ)) ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُثْمَانُ؟ قَالَ: ((عُثْمَانُ)) ، فَلَمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَدَقَنِي فَلَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ سَأَلْتُهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 340

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کابیان ’’سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے بد ترین شخص کی طرف بھی اپنے پورے روئے انور کے ساتھ اور نرم گفتگو کے ساتھ متوجہ ہوتے تاکہ وہ اس کی وجہ سے الفت و رغبت حاصل کرے، اسی طرح پوری توجہ اور محبت بھری گفتگو میرے ساتھ بھی فرماتے یہاں تک کہ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ میں قوم کا بہترین فرد ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں بہتر ہوں یا ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر۔ پھر میں نے عرض کیا کہ میں بہتر ہوں یا عمر رضی اللہ عنہ ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر۔ پھر میں نے عرض کیا کہ آیا میں بہتر ہوں یا عثمان رضی اللہ عنہ ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہایت ہی سچا جواب مرحمت فرمایا: البتہ مجھے پسند تھا کہ اے کاش میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات نہ پوچھی ہوتی۔‘‘
تشریح : یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کا ایک پر تو بیان ہوا کہ لوگوں میں سے سب سے برے آدمی کے ساتھ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خندہ پیشانی اور توجہ سے گفتگو فرماتے تاکہ اس کا دل نرم ہو اور حق بات قبول کرنے کی طرف مائل ہو کر دینِ اسلام اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہو جاتے۔
تخریج : یہ حدیث حسن ہے۔ مجمع الزوائد (۹؍۱۵) میں امام ھیثمی رحمہ اللہ نے اس کی نسبت طبرانی کی طرف کی ہے نیز اسے حسن قرار دیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر طبرانی کی سند میں ابن اسحاق راوی نے بصیغۂ تحدیث روایت کی ہے تو یہ حدیث حسن ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کا ایک پر تو بیان ہوا کہ لوگوں میں سے سب سے برے آدمی کے ساتھ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خندہ پیشانی اور توجہ سے گفتگو فرماتے تاکہ اس کا دل نرم ہو اور حق بات قبول کرنے کی طرف مائل ہو کر دینِ اسلام اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہو جاتے۔