شمائل ترمذی - حدیث 34

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرَجُّلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، أَخْبَرَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ أَشْعَثِ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ((إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي طُهُورِهِ إِذَا تَطَهَّرَ، وَفِي تَرَجُّلِهِ إِذَا تَرَجَّلَ، وَفِي انْتِعَالِهِ إِذَا انْتَعَلَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 34

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھی کرنے کا بیان ’’ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سے شروع کرنا پسند فرماتے، اپنے وضوء کرنے میں جب وضوء کرتے، اور کنگھی کرتے وقت جب کنگھی کرتے، اورجوتا پہنتے وقت جب جو تا پہنتے۔ ‘‘
تشریح : حدیث الباب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طہارت وپاکیزگی اختیار کرنے میں دائیں جانب سے ابتداء کرنا پسند فرماتے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ((یُعْجِبُهُ التَّیَمُّنُ مَا اسْتَطَاعَ)) (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب الترجیل والتیمن فیه، حدیث:۵۹۲۵۔) یعنی دائیں طرف سے شروع کرنا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم مقدور بھر پسندفرماتے۔ اس سے ثابت ہواکہ اگر کوئی مانع ہو تو کوئی حرج نہیں، ورنہ ا س کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس حدیث میں صرف تین چیزوں (وضو، کنگھی اور جوتا) کا تذکرہ ہے، لیکن یہ پسند یدگی صرف ان تین اشیاء پر منحصر نہیں ہے بلکہ جتنے بھی تکریم کے کام ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں داہنی جانب سے شروع کرتے تھے چنانچہ کسی چیز کا دینا، لینا، کپڑے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، سر اور لب کے بال کٹوانا، مسواک کرنا، آنکھوں میں سرمہ ڈالنا، ناخن کٹوانا، غرضیکہ تمام امورِ حسنہ داہنی جانب سے شروع کرنا انسب اور بہتر ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ سر میں کنگھی کرتے ہوئے، اور دھوتے اور منڈواتے وقت داہنی طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ غلاظت دور کرنے کی طرح ہے، اس لیے یہاں بائیں جانب سے شروع کیا جائے بلکہ یہ عبادت اور زینت حاصل کرنے کی طرح ہے۔ نیزفرماتے ہیں : اس حدیث سے امام کی دائیں جانب کھڑے ہونے، اور مسجد میں دائیں جانب کو ترجیح دینے، اور دائیں ہاتھ سے کھانے، اور پینے کا استحباب بھی ثابت ہو تا ہے۔ (فتح الباري (۱؍۷۰۹)۔) امام نووی فرماتے ہیں : ’’قَاعِدَةُ الشَّرْعِ الْمُسْتَمِرَّةِ اسْتِحْبَابُ الْبَدَائَةِ بِالْیَمِیْنِ فِيْ کُلِّ مَا کَانَ مِنْ بَابِ التَّکْرِیْمِ وَمَا کَانَ بِضِدِّہِ فَاسْتَحَبَّ فِیْهِ التَیَاسُر۔ ‘‘(شرح مسلم للنووي (۱؍۴۲۷)۔) ’’ کہ شریعت کا یہ قاعدہ جاریہ ہے کہ جو امر بھی اچھائی اور زینت حاصل کرنے کا ہے، اس میں داہنی جانب سے ابتدا ء کرنا مستحب ہے اور جو اس کے برعکس ہواس میں بائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔ ‘‘ سنن ابی داؤد میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں : ’’کَانَتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْیُمْنٰی لِطُهُوْرِهِ وَطَعَامِهِ وَکَانَتِ الْیُسْرٰی مَا کَانَ مِنْ أَذًی۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الطهارة، باب کراهیة مس الذکر بالیمین فی الاستبراء، حدیث:۳۳۔) ’’ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے تھا، اور بایاں ہاتھ صحت خانہ کے لیے اور اسی طرح کے دیگر کا موں کے لیے تھا۔ ‘‘
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الوضوء: ۱۶۸ وفیه زیاده ’’ وَفِي شَأْنِهِ کُلِّهِ ‘‘۔ صحیح مسلم، کتاب الطهارة: ۲۶۸۔ حدیث الباب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طہارت وپاکیزگی اختیار کرنے میں دائیں جانب سے ابتداء کرنا پسند فرماتے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ((یُعْجِبُهُ التَّیَمُّنُ مَا اسْتَطَاعَ)) (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب الترجیل والتیمن فیه، حدیث:۵۹۲۵۔) یعنی دائیں طرف سے شروع کرنا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم مقدور بھر پسندفرماتے۔ اس سے ثابت ہواکہ اگر کوئی مانع ہو تو کوئی حرج نہیں، ورنہ ا س کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس حدیث میں صرف تین چیزوں (وضو، کنگھی اور جوتا) کا تذکرہ ہے، لیکن یہ پسند یدگی صرف ان تین اشیاء پر منحصر نہیں ہے بلکہ جتنے بھی تکریم کے کام ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں داہنی جانب سے شروع کرتے تھے چنانچہ کسی چیز کا دینا، لینا، کپڑے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، سر اور لب کے بال کٹوانا، مسواک کرنا، آنکھوں میں سرمہ ڈالنا، ناخن کٹوانا، غرضیکہ تمام امورِ حسنہ داہنی جانب سے شروع کرنا انسب اور بہتر ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ سر میں کنگھی کرتے ہوئے، اور دھوتے اور منڈواتے وقت داہنی طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ غلاظت دور کرنے کی طرح ہے، اس لیے یہاں بائیں جانب سے شروع کیا جائے بلکہ یہ عبادت اور زینت حاصل کرنے کی طرح ہے۔ نیزفرماتے ہیں : اس حدیث سے امام کی دائیں جانب کھڑے ہونے، اور مسجد میں دائیں جانب کو ترجیح دینے، اور دائیں ہاتھ سے کھانے، اور پینے کا استحباب بھی ثابت ہو تا ہے۔ (فتح الباري (۱؍۷۰۹)۔) امام نووی فرماتے ہیں : ’’قَاعِدَةُ الشَّرْعِ الْمُسْتَمِرَّةِ اسْتِحْبَابُ الْبَدَائَةِ بِالْیَمِیْنِ فِيْ کُلِّ مَا کَانَ مِنْ بَابِ التَّکْرِیْمِ وَمَا کَانَ بِضِدِّہِ فَاسْتَحَبَّ فِیْهِ التَیَاسُر۔ ‘‘(شرح مسلم للنووي (۱؍۴۲۷)۔) ’’ کہ شریعت کا یہ قاعدہ جاریہ ہے کہ جو امر بھی اچھائی اور زینت حاصل کرنے کا ہے، اس میں داہنی جانب سے ابتدا ء کرنا مستحب ہے اور جو اس کے برعکس ہواس میں بائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔ ‘‘ سنن ابی داؤد میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں : ’’کَانَتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْیُمْنٰی لِطُهُوْرِهِ وَطَعَامِهِ وَکَانَتِ الْیُسْرٰی مَا کَانَ مِنْ أَذًی۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الطهارة، باب کراهیة مس الذکر بالیمین فی الاستبراء، حدیث:۳۳۔) ’’ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے تھا، اور بایاں ہاتھ صحت خانہ کے لیے اور اسی طرح کے دیگر کا موں کے لیے تھا۔ ‘‘