شمائل ترمذی - حدیث 338

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ،حَدَّثَنِيْ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، قَالَتْ: قِيلَ لِعَائِشَةَ: مَاذَا كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: ((كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ، يَفْلِي ثَوْبَهُ، وَيَحْلُبُ شَاتَهُ، وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 338

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان ’’عمرہ فرماتی ہیں کہ ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور اپنے ذاتی کام بھی خود ہی انجام دیتے تھے۔‘‘
تشریح : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری اور تواضع کے مزید نمونے ہیں۔ متکبر آدمی اس طرح کے معمولی کام خود کرنے کے بجائے خادموں اور ملازموں سے کرواتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے تھے۔( الأدب المفرد للبخاري(۵۵۰)۔ مسند أحمد (۶؍۱۰۶)۔)مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ اپنے ڈول کو خود ہی پیوند لگا لیتے تھے۔( مسند أحمد (۶؍۱۰۶)۔ صحیح ابن حبان (۵۶۴۷)۔) حدیث الباب کی ابتداء میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پہلے بطور تمہید فرمایا: ((کَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ)) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اس کے بعد اس کی تفصیل و تشریح کر دی کہ کفار کا جو نظریہ ہے کہ نبی کے منصب کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ ایسے کام کرے جو عام لوگ کرتے ہیں اور جس طرح بادشاہ عام معمولاتِ زندگی سے اونچے ہوتے ہیں اور تکبر سے چھوٹے چھوٹے کام خود نہیں کرتے اسی طرح نبی بھی ہونا چاہیے جیساکہ قرآن کریم نے ان کی بات نقل کی ہے۔ ﴿مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِيْ فِيْ الْأَسْوَاقِ...﴾ ’’یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی ضروریات کے لیے چلتا پھرتا ہے؟ ‘‘ تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکے اس ابہام کو دور کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور اولادِ آدم میں سے تھے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے بلکہ لوگوں کے معاملات میں ان سے تعاون کرتے، خود بھی تواضع اور انکساری کو اپناتے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جھوٹی بلندیوں اور شانوں کو ختم کر دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰهُکُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ ...﴾ ’’اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں، صرف میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے...‘‘ یَفْلِيْ ثَوْبَهُ: کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے تھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں میں جوئیں ہوتی تھیں بلکہ اس سے مراد زیادتِ تطھر والتنظف مقصود ہے۔ باب ما جاء في تواضع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذلك
تخریج : یہ حدیث مذکورہ سند سے ضعیف ہے لیکن اس کے کئی اور طریق بھی ہیں جن کی وجہ سے اس کی صحت شک و شبہ سے بالا تر ہے مسند أحمد بن حنبل (۶؍۲۵۶)، الأدب المفرد للبخاري (۱؍۵۴۱) شرح السنة للبغوي (۷؍۳۵۷۰) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری اور تواضع کے مزید نمونے ہیں۔ متکبر آدمی اس طرح کے معمولی کام خود کرنے کے بجائے خادموں اور ملازموں سے کرواتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے تھے۔( الأدب المفرد للبخاري(۵۵۰)۔ مسند أحمد (۶؍۱۰۶)۔)مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ اپنے ڈول کو خود ہی پیوند لگا لیتے تھے۔( مسند أحمد (۶؍۱۰۶)۔ صحیح ابن حبان (۵۶۴۷)۔) حدیث الباب کی ابتداء میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پہلے بطور تمہید فرمایا: ((کَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ)) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اس کے بعد اس کی تفصیل و تشریح کر دی کہ کفار کا جو نظریہ ہے کہ نبی کے منصب کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ ایسے کام کرے جو عام لوگ کرتے ہیں اور جس طرح بادشاہ عام معمولاتِ زندگی سے اونچے ہوتے ہیں اور تکبر سے چھوٹے چھوٹے کام خود نہیں کرتے اسی طرح نبی بھی ہونا چاہیے جیساکہ قرآن کریم نے ان کی بات نقل کی ہے۔ ﴿مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِيْ فِيْ الْأَسْوَاقِ...﴾ ’’یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی ضروریات کے لیے چلتا پھرتا ہے؟ ‘‘ تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکے اس ابہام کو دور کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور اولادِ آدم میں سے تھے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے بلکہ لوگوں کے معاملات میں ان سے تعاون کرتے، خود بھی تواضع اور انکساری کو اپناتے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جھوٹی بلندیوں اور شانوں کو ختم کر دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰهُکُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ ...﴾ ’’اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں، صرف میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے...‘‘ یَفْلِيْ ثَوْبَهُ: کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے تھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں میں جوئیں ہوتی تھیں بلکہ اس سے مراد زیادتِ تطھر والتنظف مقصود ہے۔ باب ما جاء في تواضع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذلك