كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنِيْ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ، وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا، فَقَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا، يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ)) فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ قَالَ الْحَسَنُ: ((فَكَتَّمْتُهَا الْحُسَيْنَ زَمَانًا، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ. فَسَأَلَهُ عَمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَوَجَدْتُهُ قَدْ سَأَلَ أَبَاهَا عَنْ مَدْخَلِهِ وَمَخْرَجِهِ وَشَكْلِهِ فَلَمْ يَدَعْ مِنْهُ شَيْئًا)) قَالَ الْحُسَيْنُ: فَسَأَلْتُ أَبِي، عَنْ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَانَ " إِذَا أَوَى إِلَى مَنْزلِهِ جَزَّأَ دُخُولَهُ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، جُزْءًا لِلَّهِ، وَجُزْءًا لِأَهْلِهِ، وَجُزْءًا لِنَفْسِهِ، ثُمَّ جَزَّأَ جُزْأَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَيَرُدُّ ذَلِكَ بِالْخَاصَّةِ عَلَى الْعَامَّةِ، وَلَا يَدَّخِرُ عَنْهُمْ شَيْئًا، وَكَانَ مِنْ سِيرَتِهِ فِي جُزْءِ الْأُمَّةِ إِيثَارُ أَهْلِ الْفَضْلِ بِإِذْنِهِ وَقَسْمِهِ عَلَى قَدْرِ فَضْلِهِمْ فِي الدِّينِ، فَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَةِ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَتَيْنِ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَوَائِجِ، فَيَتَشَاغَلُ بِهِمْ وَيَشْغَلُهُمْ فِيمَا يُصْلِحُهُمْ وَالْأُمَّةَ مِنْ مُسَاءَلَتِهِمْ عَنْهُ وَإِخْبَارِهِمْ بِالَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ وَيَقُولُ: ((لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ، وَأَبْلِغُونِي حَاجَةَ مَنْ لَا يَسْتَطِيعُ إِبْلَاغَهَا، فَإِنَّهُ مَنْ أَبْلَغَ سُلطَانًا حَاجَةَ مَنْ لَا يَسْتَطِيعُ إِبْلَاغَهَا ثَبَّتَ اللَّهُ قَدمَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) ، لَا يُذْكَرُ عِنْدَهُ إِلَا ذَلِكَ، وَلَا يُقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَيْرِهِ، يَدْخُلُونَ رُوَّادًا وَلَا يَفْتَرِقُونَ إِلَا عَنْ ذَوَاقٍ، وَيُخْرِجُونَ أَدِلَّةً يَعْنِي عَلَى الْخَيْرِ " قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَخْرَجِهِ كَيْفَ يَصْنَعُ فِيهِ؟ قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِنُ لِسَانُهُ إِلَا فِيمَا يَعْنِيهِ، وَيُؤَلِّفُهُمْ وَلَا يُنَفِّرُهُمْ، وَيُكْرِمُ كَرَيمَ كُلِّ قَوْمٍ وَيُوَلِّيهِ عَلَيْهِمْ، وَيُحَذِّرُ النَّاسَ وَيَحْتَرِسُ مِنْهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَطْوِيَ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ بِشْرَهُ وَخُلُقَهُ، وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ، وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ، وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيهِ، وَيُقَبِّحُ الْقَبِيحَ وَيُوَهِّيهِ، مُعْتَدِلُ الْأَمْرِ غَيْرُ مُخْتَلِفٍ، لَا يَغْفُلُ مَخَافَةَ أَنْ يَغْفُلُوا أَوْ يَمِيلُوا، لِكُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ، لَا يُقَصِّرُ عَنِ الْحَقِّ وَلَا يُجَاوِزُهُ. الَّذِينَ يَلُونَهُ مِنَ النَّاسِ خِيَارُهُمْ، أَفْضَلُهُمْ عِنْدَهُ أَعَمُّهُمْ نَصِيحَةً، وَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَحْسَنُهُمْ مُوَاسَاةً وَمُؤَازَرَةً)) قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ، فَقَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقُومُ وَلَا يَجَلِسُ إِلَا عَلَى ذِكْرٍ، وَإِذَا انْتَهَى إِلَى قَوْمٍ جَلَسَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ وَيَأْمُرُ بِذَلِكَ، يُعْطِي كُلَّ جُلَسَائِهِ بِنَصِيبِهِ، لَا يَحْسَبُ جَلِيسُهُ أَنَّ أَحَدًا أَكْرَمُ عَلَيْهِ مِنْهُ، مَنْ جَالَسَهُ أَوْ فَاوَضَهُ فِي حَاجَةٍ صَابَرَهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الْمُنْصَرِفُ عَنْهُ، وَمَنْ سَأَلَهُ حَاجَةً لَمْ يَرُدَّهُ إِلَا بِهَا أَوْ بِمَيْسُورٍ مِنَ الْقَوْلِ، قَدْ وَسِعَ النَّاسَ بَسْطُهُ وَخُلُقُهُ، فَصَارَ لَهُمْ أَبًا وَصَارُوا عِنْدَهُ فِي الْحَقِّ سَوَاءً، مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ عِلْمٍ وَحِلْمٍ وَحَيَاءٍ وَأَمَانَةٍ وَصَبْرٍ، لَا تُرْفَعُ فِيهِ الْأَصْوَاتُ وَلَا تُؤْبَنُ فِيهِ الْحُرَمُ، وَلَا تُثَنَّى فَلَتَاتُهُ مُتَعَادِلِينَ، بَلْ كَانُوا يَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالتَّقْوَى، مُتَوَاضِعِينَ يُوقِّرُونَ فِيهِ الْكَبِيرَ وَيَرْحَمُونَ فِيهِ الصَّغِيرَ، وَيُؤْثِرُونَ ذَا الْحَاجَةِ وَيَحْفَظُونَ الْغَرِيبَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان
’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ھند بن ابی ھالۃ سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک) پوچھا کیونکہ وہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے رہتے تھے اور میں بھی چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے اس سے کچھ بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودشاندار تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی شان والے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخِ انور چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا تھا۔‘‘ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی (جو اسی کتاب کے پہلے باب میں گذر چکی ہے۔) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک عرصہ تک میں نے اس حدیث کو اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے چھپائے رکھا اور انہیں بیان نہ کی۔ پھر جب میں نے یہ حدیث انہیں بیان کی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ پر اس کے جاننے میں سبقت لے گئے ہیں ا ور دریافت کر چکے تھے۔ نیز میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے والد علی رضی اللہ عنہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر آنے جانے اور دیگر طور طریقے کے بارے میں دریافت کر چکے ہیں اور اس بارے میں ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہی۔‘‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر مبارک میں تشریف لے جانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر تشریف لے جاتے تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر لیتے۔ ایک حصہ اللہ تعالیٰ (کے ذکر و فکر) کے لیے۔ ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے، اور ایک حصہ اپنے کام کاج اور آرام کے لیے۔ پھر وہ حصہ جو اپنے لیے مخصوص فرماتے اسے دو حصوں میں تقسیم کر لیتے۔ کچھ اپنے لیے اور کچھ دیگر لوگوں کے لیے، لوگوں کے حصہ میں خواص کو عوام پر ترجیح دیتے، اور ان سے کوئی چیز مخفی نہ رکھتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت کے ساتھ اہل فضل و علم کو ترجیح دیتے اور اس وقت کوبھی دینی فضل و عظمت کے لحاظ سے تقسیم فرما لیتے، بعض لوگ ایک ضرورت والے ہوتے، اور بعض لوگ دو ضرورتوں والے، اور بعض زیادہ ضرورتوں والے ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مشغول رکھتے اور ان تمام امور میں مشغول رہتے جن میں ان لوگوں کی اور عام افرادِامت کی اصلاح ہوتی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ایسی خبریں دیتے جو ان کے لیے ضروری ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے کہ ’’تم میں سے جو لوگ یہاں حاضر ہیں وہ میری بات ان تک پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں، اور جو مجھ تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کی حاجت و ضرورت مجھے پہنچاؤ، کیونکہ یقیناً جو شخص امیر یا سلطان تک کسی ایسے شخص کی ضرورت پہنچائے جو خود نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ عزوجل اسے قیامت کے دن ثابت قدم رکھے گا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اسی طرح کی باتیں ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے اس طرح کی باتوں کے علاوہ اور کچھ قبول نہ فرماتے تھے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طالب بن کر جاتے اور سیر ہو کر جدا ہوتے نیز خیرو بھلائی کے داعی بن کر نکلتے۔‘‘ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے نکلنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے گھر سے باہر بھی) اپنی زبان مبارک کو فضول باتوں سے محفوظ رکھتے اور صرف با مقصد گفتگو فرماتے، لوگوں کو آپس میں جوڑتے اور ان کو توڑتے نہیں تھے انہیں اپنے سے مانوس کرتے، قوم کے عزت دار اور سردار کی تکریم کرتے اور اسی کو انکے معاملات پر امیرمقرر فرماتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے، اور لوگوں میں جو واقعات ہوتے ان کو دریافت فرماتے اور ہر اچھی بات کی تحسین فرما کر اسے مزید تقویت دیتے، ہر بری بات کی برائی بیان فرماتے اور اسے زائل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام میں میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ جلد باز تھے اور کسی وقت بھی اپنے ساتھیوں کی اصلاح سے غافل نہ ہوتے کہ کہیں یہ لوگ امورِ دین سے غافل نہ ہو جائیں اور کسی دوسری طرف مائل نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر کام کے لیے باقاعدہ اہتمام و انتظام ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ارشاد فرمانے میں نہ کوتاہی کرتے اور نہ ہی حد سے تجاوزکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی افراد انتہائی بہترین افراد ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صاحبِ فضیلت وہ ہوتا جو کہ از روئے نصیحت کرنے کے ہر ایک کی بھلائی چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑے مرتبے والا وہ ہوتا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لیتا۔‘‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست ہمیشہ ذکر الٰہی پر ہوتی اور مجلس میں پہنچتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسرے لوگوں کو بھی اسی طرح کرنے کا حکم دیتے، حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کو اس کا حصہ دیتے۔ مجلس کا کوئی بھی ساتھی یہ نہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں فلاں شخص اس سے زیادہ باعزت ہے (بلکہ تمام دوستوں کو یکساں عزت دیتے)، جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا اپنی کوئی حاجت و ضرورت پیش کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ بیٹھے رہتے حتیٰ کہ وہ خود چلا جاتا، اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی کسی ضرورت حاجت کا سوال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پورا کر دیتے ورنہ نرمی کے ساتھ جواب مرحمت فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خندہ روئی اور اخلاق کریمانہ ہر ایک کو احاطہ کیے ہوئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے لیے باپ کے درجہ پر تھے، حقوق کے لحاظ سے تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرِ مبارک میں برابر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ پاک علم و حلم، حیاء و شرم اور صبرو امانت کا مرقع ہوتی۔ مجلس میں کوئی بھی اونچی آواز نہ کرتا اور نہ ہی کسی کی بے حرمتی کی جاتی،کسی کی لغزش اور کمزوری کو شہرت نہ دی جاتی، سب لوگ باہم ایک دوسرے پر برابر جانے جاتے، ہاں مجلس پاک میں کسی کی افضلیت و مرتبت تقوی کی بنیاد پر ہوتی، شرکاء مجلس ایک دوسرے سے تواضع اور انکساری سے پیش آتے، بڑوں کی عزت اور کم عمر والے لوگوں پر شفقت کی جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے اور مسافروں کی،اجنبیوں کی خبر گیری اور حفاظت کرتے۔‘‘
تخریج : یہ حدیث مع تخریج و فوائد باب ماجاء في خلق رسول اللّٰه صلى الله علیه وسلم میں گذر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر ۷۔