كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)) قَالَ: ((وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا، لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهَتِهِ لِذَلِكَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب اور پیارا اور کوئی بھی نہ تھا اور وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی اور ناراضگی کو جانتے تھے۔‘‘
تشریح :
قیام بطور تمثل حرام ہے جس طرح کہ بڑے لوگوں کا رواج ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَّتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب الرجل یقول للرجل، یعظمه بذلك، حدیث:۵۲۲۹۔)1’’یعنی جو شخص بھی یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے مورت بن کر کھڑے رہیں تو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے لیے اٹھنے کو مکروہ کہنے کی سب سے زیادہ قوی دلیل یہی روایت ہے۔ مگر پسندیدہ مسلک اکثر علماء کا یہی ہے کہ یہ قیام جائز ہے اس کی دیگر وجوہات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو منع فرمایا ہے وہ فتنے کے ڈر سے تھا کہ کہیں بڑے لوگوں کو ان کی حد سے زیادہ نہ بڑھایا جائے اسی لیے فرمایا: ((لَا تَطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ))( صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰه تعالی ﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ﴾، حدیث:۳۴۴۵۔)’’کہ مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے مسیح بن مریم(علیہما السلام)کو حد سے بڑھا دیا تھا۔‘‘ ورنہ بعض کا بعض کے لیے قیام حرام نہیں ہے۔ کیونکہ قیام بھی حدیث سے ثابت ہے مثلاً حضرت عدی بن حاتم، سیدنا جعفر بن ابی طالب، سیدنا زید بن ثابت، اور سیدنا عکرمہ وغیرھم رضی الله عنہم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا: اسی طرح سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اٹھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا۔ اسی طرح باہر سے آنے والے کے لیے اٹھنے میں تو کوئی حرج ہی نہیں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے اٹھتے تھے۔‘‘امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’کسی کے لیے قیام علی الاعظام مکروہ ہے اور علی سبیل الاکرام جائز ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل علم و فضل جب تشریف لائیں تو ان کے لیے اٹھنا مستحب ہے۔ اس کے متعلق احادیث میں بھی وارد ہے اور اس کے متعلق نہی بھی ثابت نہیں، میں نے اس موضوع پر ایک الگ رسالہ بھی لکھا ہے جس میں کراہت کی احادیث پر کافی و وافی کلام بھی موجود ہے۔‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’منہی عنہ وہ قیام ہے جس میں کوئی شخص اپنے لیے قیام کو اپنا حق سمجھے۔ اس قسم کی جبری تعظیم حرمت کے ذیل میں آتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شوق، محبت اور اکرام کے لیے از خود کھڑا ہو جائے تو اس کی شریعتِ اسلامیہ میں گنجائش موجود ہے۔‘‘
اس حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام سے حد درجہ واقف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ادب و احترام تمام لوگوں سے بڑھ کر کرتے تھے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قیام نہیں فرماتے تھے تو ہمیں بھی اس سلسلے میں ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ والله اعلم بالصواب۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، کتاب أبواب الأدب، باب ماجاء في کراهیة قیام الرجل للرجل (۵؍۲۷۵۴)، الأدب المفرد للبخاري(۲؍۹۴۶)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۳۲)۔
قیام بطور تمثل حرام ہے جس طرح کہ بڑے لوگوں کا رواج ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَّتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب الرجل یقول للرجل، یعظمه بذلك، حدیث:۵۲۲۹۔)1’’یعنی جو شخص بھی یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے مورت بن کر کھڑے رہیں تو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے لیے اٹھنے کو مکروہ کہنے کی سب سے زیادہ قوی دلیل یہی روایت ہے۔ مگر پسندیدہ مسلک اکثر علماء کا یہی ہے کہ یہ قیام جائز ہے اس کی دیگر وجوہات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو منع فرمایا ہے وہ فتنے کے ڈر سے تھا کہ کہیں بڑے لوگوں کو ان کی حد سے زیادہ نہ بڑھایا جائے اسی لیے فرمایا: ((لَا تَطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ))( صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰه تعالی ﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ﴾، حدیث:۳۴۴۵۔)’’کہ مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے مسیح بن مریم(علیہما السلام)کو حد سے بڑھا دیا تھا۔‘‘ ورنہ بعض کا بعض کے لیے قیام حرام نہیں ہے۔ کیونکہ قیام بھی حدیث سے ثابت ہے مثلاً حضرت عدی بن حاتم، سیدنا جعفر بن ابی طالب، سیدنا زید بن ثابت، اور سیدنا عکرمہ وغیرھم رضی الله عنہم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا: اسی طرح سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اٹھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا۔ اسی طرح باہر سے آنے والے کے لیے اٹھنے میں تو کوئی حرج ہی نہیں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے اٹھتے تھے۔‘‘امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’کسی کے لیے قیام علی الاعظام مکروہ ہے اور علی سبیل الاکرام جائز ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل علم و فضل جب تشریف لائیں تو ان کے لیے اٹھنا مستحب ہے۔ اس کے متعلق احادیث میں بھی وارد ہے اور اس کے متعلق نہی بھی ثابت نہیں، میں نے اس موضوع پر ایک الگ رسالہ بھی لکھا ہے جس میں کراہت کی احادیث پر کافی و وافی کلام بھی موجود ہے۔‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’منہی عنہ وہ قیام ہے جس میں کوئی شخص اپنے لیے قیام کو اپنا حق سمجھے۔ اس قسم کی جبری تعظیم حرمت کے ذیل میں آتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شوق، محبت اور اکرام کے لیے از خود کھڑا ہو جائے تو اس کی شریعتِ اسلامیہ میں گنجائش موجود ہے۔‘‘
اس حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام سے حد درجہ واقف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ادب و احترام تمام لوگوں سے بڑھ کر کرتے تھے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قیام نہیں فرماتے تھے تو ہمیں بھی اس سلسلے میں ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ والله اعلم بالصواب۔