شمائل ترمذی - حدیث 330

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَحْلٍ رَثٍّ وَعَلَيْهِ قَطِيفَةٌ لَا تُسَاوِي أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ: ((اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا لَا رِيَاءَ فِيهِ وَلَا سُمْعَةَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 330

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوہ پر حج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کی قیمت چار درہم کے برابر بھی نہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اس حج کو ایسا بنا دے جس میں نہ ریاء ہو اور نہ شہرت ہو۔‘‘
تشریح : حدیث الباب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تواضع اور انکساری کی ایک مثال دی گئی ہے۔ہر عبادت میں اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اعمال قبول نہیں ہوتے۔ حج بھی ایک اہم عبادت ہے جس میں پورے خلوص، عاجزی اور انکساری کا اظہار ہونا چاہیے مگر موجودہ دور میں اکثر لوگ حج پر بڑی ٹھاٹ باٹھ سے جاتے ہیں اور اس موقع پر باقاعدہ دعوتیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے لیے علیحدہ طور پر دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں اور پھر حج پر جانے والے کو دولہے کی طرح سنوار سجا کر مسند پر بٹھایا جاتا ہے اور اس کو سلامیاں (مالی تحفے) دی جاتی ہیں، گلے میں پھولوں کے ہار، نوٹوں کے ہار اور مالا وغیرہ پہنائی جاتی ہے۔ ان تمام چیزوں کا تعلق ریا، سمعۃ اور شہرت سے ہے ا ور یہ امور اخلاص، للہیت اور تواضع سے خالی ہیں۔ واللہ اعلم۔
تخریج : یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ سنن ابن ماجة، کتاب المناسك (۲؍۲۸۹۰) اس سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہے لیکن اس حدیث کے کئی شواہد ہیں جن میں سے ایک شاہد صحیح ابن خزیمۃ (۲۸۳۶) میں بشر بن قدامہ کی روایت سے مذکور ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شاہد السنن الکبریٰ للبیھقي (۴؍۳۳۳) میں موجود ہے اور تیسراشاھد ابن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت سے المعجم الأوسط للطبراني میں ہے جیسا کہ حافظ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (۳؍۲۲۱) میں ذکر کیا ہے۔ حدیث الباب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تواضع اور انکساری کی ایک مثال دی گئی ہے۔ہر عبادت میں اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اعمال قبول نہیں ہوتے۔ حج بھی ایک اہم عبادت ہے جس میں پورے خلوص، عاجزی اور انکساری کا اظہار ہونا چاہیے مگر موجودہ دور میں اکثر لوگ حج پر بڑی ٹھاٹ باٹھ سے جاتے ہیں اور اس موقع پر باقاعدہ دعوتیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے لیے علیحدہ طور پر دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں اور پھر حج پر جانے والے کو دولہے کی طرح سنوار سجا کر مسند پر بٹھایا جاتا ہے اور اس کو سلامیاں (مالی تحفے) دی جاتی ہیں، گلے میں پھولوں کے ہار، نوٹوں کے ہار اور مالا وغیرہ پہنائی جاتی ہے۔ ان تمام چیزوں کا تعلق ریا، سمعۃ اور شہرت سے ہے ا ور یہ امور اخلاص، للہیت اور تواضع سے خالی ہیں۔ واللہ اعلم۔