كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ،أَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الْجَنَائِزَ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ، وَكَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بَحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ وَعَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت کرتے تھے، جنازوں میں شرکت کرتے تھے، گدھے پر سوار ہو جاتے تھےغلاموں کی دعوت قبول کر لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کی لڑائی کے دن ایک ایسے گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پٹھوں کی تھی اور اس پر پالان بھی کھجور کی چھال (پٹھوں ) کا تھا۔‘‘
تشریح :
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی:
حدیث الباب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کے مختلف نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
۱۔ مریضوں کی عیادت کرنا ۲۔ جنازوں میں شرکت کرنا
۳۔ گدھے پر سواری کرنا ۴۔ غلاموں کی دعوت قبول کرنا۔
یہ ایسے اعمال ہیں جنہیں کوئی متواضع اور منکسر المزاج شخص ہی انجام دے سکتا ہے کبرو غرور میں ڈوبے ہوئے آدمی سے ان اعمال کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ اعمال فی نفسہ کبرو غرور کو خاک میں ملانے والے ہیں۔ مریض کی عیادت یہ خبر دیتی ہے کہ بڑے لوگ ایسے کاموں کے لے عموماً اپنے مزدوروں اور ملازموں کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کے غرور و گمھنڈ اور کبرو نخوت پر کوئی حرف نہ آئے۔ مریض کی عیادت خود کرنے کے بجائے اپنے غلام، نوکر یا ملازم کو پھولوں کے دستے دے کر بھیج دیا جاتا ہے اور اپنی دولت کا اظہار کرنے کے لیے ساتھ ہی کچھ تحفے و تحائف بھیج دیے جاتے ہیں۔ جنازوں میں شرکت کے بجائے تعزیتی پیغام بھیج دینا کافی سمجھتے ہیں اور غریب و مسکین لوگوں کی دعوت ناچاہتے ہوئے قبول بھی کر لیں تو اول تو وہاں پہنچتے ہی نہیں اور اگر وہاں پہنچ جائیں تو مختلف قسم کے ناز نخرے بکھیرتے رہتے ہیں اور اس غریب کی غربت و افلاس کا خوب مزاق اڑاتے ہیں۔ اعلیٰ قسم کی سواری موجود نہ ہو تو ادنیٰ سواری پر بیٹھنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام تکلفات سے پاک تھے اس طرح کی جھوٹی شان و شوکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک متواضع اور منکسرالمزاج شخص کی طرح زندگی کے شب و روز گذارتے تاکہ افرادِ امت کے لیے زندگی گذارنے کا صحیح انداز و اسلوب واضح ہو۔ اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما تحب وترضی له۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، کتاب الجنائز (۳؍۱۰۱۷)، سنن ابن ماجة، کتاب الزهد (۲؍۴۱۷۸)، مستدرك حاکم (۲؍۴۶۶)، مسند أبي داود طیالسي(ص:۲۸۵)، شرح السنة (۷؍۳۵۶۷)، دلائل النبوة للبیهقي (۴؍۲۰۴)۔
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی:
حدیث الباب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کے مختلف نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
۱۔ مریضوں کی عیادت کرنا ۲۔ جنازوں میں شرکت کرنا
۳۔ گدھے پر سواری کرنا ۴۔ غلاموں کی دعوت قبول کرنا۔
یہ ایسے اعمال ہیں جنہیں کوئی متواضع اور منکسر المزاج شخص ہی انجام دے سکتا ہے کبرو غرور میں ڈوبے ہوئے آدمی سے ان اعمال کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ اعمال فی نفسہ کبرو غرور کو خاک میں ملانے والے ہیں۔ مریض کی عیادت یہ خبر دیتی ہے کہ بڑے لوگ ایسے کاموں کے لے عموماً اپنے مزدوروں اور ملازموں کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کے غرور و گمھنڈ اور کبرو نخوت پر کوئی حرف نہ آئے۔ مریض کی عیادت خود کرنے کے بجائے اپنے غلام، نوکر یا ملازم کو پھولوں کے دستے دے کر بھیج دیا جاتا ہے اور اپنی دولت کا اظہار کرنے کے لیے ساتھ ہی کچھ تحفے و تحائف بھیج دیے جاتے ہیں۔ جنازوں میں شرکت کے بجائے تعزیتی پیغام بھیج دینا کافی سمجھتے ہیں اور غریب و مسکین لوگوں کی دعوت ناچاہتے ہوئے قبول بھی کر لیں تو اول تو وہاں پہنچتے ہی نہیں اور اگر وہاں پہنچ جائیں تو مختلف قسم کے ناز نخرے بکھیرتے رہتے ہیں اور اس غریب کی غربت و افلاس کا خوب مزاق اڑاتے ہیں۔ اعلیٰ قسم کی سواری موجود نہ ہو تو ادنیٰ سواری پر بیٹھنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام تکلفات سے پاک تھے اس طرح کی جھوٹی شان و شوکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک متواضع اور منکسرالمزاج شخص کی طرح زندگی کے شب و روز گذارتے تاکہ افرادِ امت کے لیے زندگی گذارنے کا صحیح انداز و اسلوب واضح ہو۔ اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما تحب وترضی له۔