شمائل ترمذی - حدیث 326

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 326

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان ’’امیر المومنین خلیفۂ ثانی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے میری مدح سرائی میں حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس لیے مجھے تم بھی اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔‘‘
تشریح : میں تو اللہ کا بندہ ہوں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ متواضع تھے جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بادشاہ نبی‘‘ اور ’’عبد نبی‘‘ ہونے کا اختیار دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت و عبدیت کو پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’میں تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا‘‘(صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب الأکل متکئا، حدیث:۵۳۹۸۔) نیز فرمایا: ’’میں غلاموں کی طرح کھاتا ہوں اور غلاموں کی طرح ہی بیٹھتا ہوں ‘‘(طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلی (۴۹۲۰)۔) سیدنا انس رضی اللہ عنہ جو خادم خاص تھے۔ نے اگر کبھی کوئی غیر محتاط کام کر بھی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کبھی نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔ اسی طرح کبھی ان سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان سے باز پرس نہیں کی۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء، حدیث:۶۰۳۸۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب حسن خلقه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۰۹۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لونڈی اور غلام کو کبھی نہیں مارا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر پر خلوت میں ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہوتے ہیں ؟ فرماتی ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم دل ہوتے، ہمیشہ مسکراتے رہتے۔‘‘4 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنی ٹانگیں لمبی کر کے اپنے ساتھیوں کے درمیان نہ بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش اخلاق کوئی نہیں تھا۔ جب بھی کوئی بلاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر بھی سوار ہو جاتے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا لیا کرتے، ایک مرتبہ قیس بن سعد کی سواری پر بیٹھنے لگے تو فرمایا: ’’سواری پر آگے بیٹھو یا میرے ساتھ نہ چلو، واپس ہو جاؤ، کیونکہ صاحب الدابۃ اگلے حصے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔‘‘( سبل الهدی والرشاد (۷؍۱۲۱) بحوالہ خرائطی۔ طبقات ابن سعد (۱؍۳۶۵)۔) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا تو کسی ساتھی نے کہا: مجھے دیجیے! میں یہ ٹھیک کر دوں تو فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی چیز میں بھی انفرادیت نہیں چاہتا۔‘‘( مسند أحمد (۶؍۷)۔) اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجاشی کے وفد کی خدمت کرنے لگے تو صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہم ان کی خدمت اور خاطر و تواضع کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ہمارے ساتھیوں کی خدمت کرتے رہے ہیں اس لیے میں ان کے اکرام کو پسند کرتا ہوں۔‘‘ ایک دفعہ ایک مسلمان نے ((والذي اصطفی محمد علی العالمین)) کہ ’’اس ذات کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام جہانوں سے چن لیا‘‘ یہ کہا تو ایک یہودی نے کہا: ((والذي اصطفی موسی علی العالمین)) ’’اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ(علیہ السلام) کو تمام جہانوں سے چن لیا‘‘ تو مسلمان نے یہودی کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچا اور ساری بات بتا دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو بلا کر حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ اعتراف کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے کہا: ’’مجھے موسی علیہ السلام سے بہتر نہ کہو، لوگ جب بے ہوش ہوں گے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے عرش کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے مجھے معلوم نہیں کہ کیا وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے یا بے ہوش تو ہوئے مگر مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب وفات موسی وذکرہ بعد، حدیث:۳۴۰۸۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسیٰ صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۷۳۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو منع فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کرو کیونکہ ایسا کرنے والوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مگر افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برعکس لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں وہ تمام حدود و قیود پھلانگ گئے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ أعاذنا اللّٰه من ذالك۔
تخریج : صحیح بخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول الله تعالیٰ وَاذْکُرْ فِيْ الْکِتَابِ مَرْیَمَ (۶؍۳۴۴۵) میں تو اللہ کا بندہ ہوں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ متواضع تھے جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بادشاہ نبی‘‘ اور ’’عبد نبی‘‘ ہونے کا اختیار دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت و عبدیت کو پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’میں تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا‘‘(صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب الأکل متکئا، حدیث:۵۳۹۸۔) نیز فرمایا: ’’میں غلاموں کی طرح کھاتا ہوں اور غلاموں کی طرح ہی بیٹھتا ہوں ‘‘(طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلی (۴۹۲۰)۔) سیدنا انس رضی اللہ عنہ جو خادم خاص تھے۔ نے اگر کبھی کوئی غیر محتاط کام کر بھی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کبھی نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔ اسی طرح کبھی ان سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان سے باز پرس نہیں کی۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء، حدیث:۶۰۳۸۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب حسن خلقه صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۰۹۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لونڈی اور غلام کو کبھی نہیں مارا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر پر خلوت میں ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہوتے ہیں ؟ فرماتی ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم دل ہوتے، ہمیشہ مسکراتے رہتے۔‘‘4 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنی ٹانگیں لمبی کر کے اپنے ساتھیوں کے درمیان نہ بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش اخلاق کوئی نہیں تھا۔ جب بھی کوئی بلاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر بھی سوار ہو جاتے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا لیا کرتے، ایک مرتبہ قیس بن سعد کی سواری پر بیٹھنے لگے تو فرمایا: ’’سواری پر آگے بیٹھو یا میرے ساتھ نہ چلو، واپس ہو جاؤ، کیونکہ صاحب الدابۃ اگلے حصے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔‘‘( سبل الهدی والرشاد (۷؍۱۲۱) بحوالہ خرائطی۔ طبقات ابن سعد (۱؍۳۶۵)۔) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا تو کسی ساتھی نے کہا: مجھے دیجیے! میں یہ ٹھیک کر دوں تو فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی چیز میں بھی انفرادیت نہیں چاہتا۔‘‘( مسند أحمد (۶؍۷)۔) اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجاشی کے وفد کی خدمت کرنے لگے تو صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہم ان کی خدمت اور خاطر و تواضع کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ہمارے ساتھیوں کی خدمت کرتے رہے ہیں اس لیے میں ان کے اکرام کو پسند کرتا ہوں۔‘‘ ایک دفعہ ایک مسلمان نے ((والذي اصطفی محمد علی العالمین)) کہ ’’اس ذات کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام جہانوں سے چن لیا‘‘ یہ کہا تو ایک یہودی نے کہا: ((والذي اصطفی موسی علی العالمین)) ’’اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ(علیہ السلام) کو تمام جہانوں سے چن لیا‘‘ تو مسلمان نے یہودی کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچا اور ساری بات بتا دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو بلا کر حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ اعتراف کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے کہا: ’’مجھے موسی علیہ السلام سے بہتر نہ کہو، لوگ جب بے ہوش ہوں گے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے عرش کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے مجھے معلوم نہیں کہ کیا وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے یا بے ہوش تو ہوئے مگر مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب وفات موسی وذکرہ بعد، حدیث:۳۴۰۸۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسیٰ صلى الله علیه وسلم، حدیث:۲۳۷۳۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو منع فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کرو کیونکہ ایسا کرنے والوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مگر افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برعکس لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں وہ تمام حدود و قیود پھلانگ گئے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ أعاذنا اللّٰه من ذالك۔