شمائل ترمذی - حدیث 325

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي فِرَاشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سُئِلَتْ عَائِشَةُ، مَا كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِكِ؟ قَالَتْ: ((مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهُ مِنْ لِيفٍ))وَسُئِلَتْ حَفْصَةُ، مَا كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِكِ؟ قَالَتْ: مِسْحًا نَثْنِيهِ ثَنِيَّتَيْنِ فَيَنَامُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قُلْتُ: لَوْ ثَنَيْتَهُ أَرْبَعَ ثَنْيَاتٍ لَكَانَ أَوْطَأَ لَهُ فَثَنَيْنَاهُ لَهُ بِأَرْبَعِ ثَنْيَاتٍ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: ((مَا فَرَشْتُمْ لِيَ اللَّيْلَةَ)) قَالَتْ: قُلْنَا: هُوَ فِرَاشُكَ إِلَّا أَنَّا ثَنَيْنَاهُ بِأَرْبَعِ ثَنْيَاتٍ، قُلْنَا: هُوَ أَوْطَأُ لَكَ قَالَ: ((رُدُّوهُ لِحَالَتِهِ الْأُولَى، فَإِنَّهُ مَنَعَتْنِي وَطَاءَتُهُ صَلَاتيَ اللَّيْلَةَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 325

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کا بیان ’’جعفر بن محمد اپنے والد (محمد الباقر رحمہ اللہ ) سے بیان کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر مبارک کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا: چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اس طرح ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: ایک ٹاٹ تھا جسے ہم دوہرا کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیتے تھے۔ فرماتی ہیں کہ ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اگر اس ٹاٹ کی دو تہوں کے بجائے چار تہیں کر لیں تو یہ زیادہ آرام دہ ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم نے اس کی چار تہیں کر دیں۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج رات تم نے میرے لیے کون سا بستر بچھایا تھا؟‘‘ ہم نے کہا: بستر تو وہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے لیکن ہم نے اس کی چار تہیں کر دیں تھیں اور خیال کیا تھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زیادہ آرام دہ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے پہلی حالت میں ہی لوٹا دو۔ اس پر سونے نے مجھے رات کی نماز سے محروم کر دیا۔‘‘
تخریج : یہ حدیث سخت ضعیف ہے اس کی سند میں کئی خرابیاں ہیں۔ (۱) اس میں انقطاع ہے کیونکہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۵۸ھ میں فوت ہوئیں اور محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ۵۴ھ میں پیدا ہوئے۔ تو ۵۴ ھ میں پیدا ہونے والے محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ کا سماع حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیسے ہوا۔ (۲) اس سند میں عبداللہ بن میمون راوی متروک الحدیث اور منکر الحدیث ہے جیسا کہ حافط ابن حجر عقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں ذکر کیا ہے۔ باب ماجاء في فراش رسول الله صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔