شمائل ترمذی - حدیث 324

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي فِرَاشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ((إِنَّمَا كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَنَامُ عَلَيْهِ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهُ لِيفٌ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 324

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کا بیان ’’ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر مبارک جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ ‘‘
تشریح : نرم بستر اور گدے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد و قناعت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ((کُنْ فِيْ الدُّنْیَا کَأَنَّكَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ)) (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’کُنْ فِي الدُّنْیَا...‘‘ حدیث:۶۴۱۶۔) ’’یعنی دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی اجنبی یا مسافر ہوتا ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر کیونکہ ہر وقت اخروی نعمتیں ہوتی تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیوی عیش و عشرت کو چنداں اہمیت نہ دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زہد و قناعت سے عبارت زندگی کو دیکھتے ہوئے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ قسم کے گدے اور بستر پیش کیے گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو استعمال کرنا پسند نہ کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میرے پاس انصار کی ایک عورت آئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر دیکھا جو ایک کمبل کی صورت میں چمڑے کو دوہرا کر کے بچھایا ہوا تھا۔ وہ عورت گئی اور مجھے ایک ایسا لحاف بھیجا جس میں اون تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس کو دیکھا تو فرمایا: ’’عائشہ اس کو واپس کر دو۔ اللہ کی قسم! اگر میں چاہتا تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلا دیتا۔‘‘ (شعب الإیمان (۱۴۴۹)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۴۶۵)۔ (الصحیحة:۲۴۸۴)۔) مسند احمد بن حنبل اور مسند ابوداود طیالسی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نشانات پڑ گئے تو کسی نے کہا: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نرم بستر لا دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا إِنَّمَاَ أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَهَا)) (سنن ترمذي، کتاب الزهد، باب (۴۴)، حدیث:۲۳۷۷۔ وقال حسن صحیح۔ سنن ابن ماجة (۴۱۰۹)۔)’’یعنی میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میں اور دنیا اس طرح ہیں جس طرح ایک سوار نے کسی درخت کے نیچے ذرا آرام کیا پھر وہ دن ڈھلے وہاں سے چل پڑا اور اس درخت کو وہاں ہی چھوڑ دیا۔‘‘ اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بہترین ارشاد ہے جو دین داری کو اپنانے کا واویلا کرتے ہوئے بھی دنیا کے عیش و آرام میں اس قدر غرق ہیں کہ اعلیٰ سے اعلی رہائش، اعلی سے اعلیٰ لباس، اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیاں، اعلیٰ سے اعلیٰ منصبوں پر فائز ہو کر بھی کبھی انہیں نانِ جویں پر گزارہ کرنا پڑ جائے یا کبھی اعلیٰ بستروں کے بجائے مسجد کی صفوں پر رات گزارنا پڑ جائے تو کہتے ہیں کہ ہماری قدر نہیں کی گئی’’ ہمیں حیثیت نہیں دی گئی‘‘ ’’ہماری توہین کی گئی ہے‘‘‘ ’’کیا ہمیں یتیم اور لاوارث سمجھ رکھا ہے۔‘‘ وغیره ذلك من الأقوال۔الله اکبر کبیراً! اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ورحم اللّٰہ عبدا قال آمینا۔
تخریج : صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب عیش النبي وأصحابه (۱۱؍۶۴۵۶) صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب التواضع في اللباس والاقتصاد (۳؍۳۸ برقم ۱۶۵۰) نرم بستر اور گدے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد و قناعت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ((کُنْ فِيْ الدُّنْیَا کَأَنَّكَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ)) (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’کُنْ فِي الدُّنْیَا...‘‘ حدیث:۶۴۱۶۔) ’’یعنی دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی اجنبی یا مسافر ہوتا ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر کیونکہ ہر وقت اخروی نعمتیں ہوتی تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیوی عیش و عشرت کو چنداں اہمیت نہ دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زہد و قناعت سے عبارت زندگی کو دیکھتے ہوئے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ قسم کے گدے اور بستر پیش کیے گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو استعمال کرنا پسند نہ کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میرے پاس انصار کی ایک عورت آئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر دیکھا جو ایک کمبل کی صورت میں چمڑے کو دوہرا کر کے بچھایا ہوا تھا۔ وہ عورت گئی اور مجھے ایک ایسا لحاف بھیجا جس میں اون تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس کو دیکھا تو فرمایا: ’’عائشہ اس کو واپس کر دو۔ اللہ کی قسم! اگر میں چاہتا تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلا دیتا۔‘‘ (شعب الإیمان (۱۴۴۹)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۴۶۵)۔ (الصحیحة:۲۴۸۴)۔) مسند احمد بن حنبل اور مسند ابوداود طیالسی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نشانات پڑ گئے تو کسی نے کہا: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نرم بستر لا دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا إِنَّمَاَ أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَهَا)) (سنن ترمذي، کتاب الزهد، باب (۴۴)، حدیث:۲۳۷۷۔ وقال حسن صحیح۔ سنن ابن ماجة (۴۱۰۹)۔)’’یعنی میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میں اور دنیا اس طرح ہیں جس طرح ایک سوار نے کسی درخت کے نیچے ذرا آرام کیا پھر وہ دن ڈھلے وہاں سے چل پڑا اور اس درخت کو وہاں ہی چھوڑ دیا۔‘‘ اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بہترین ارشاد ہے جو دین داری کو اپنانے کا واویلا کرتے ہوئے بھی دنیا کے عیش و آرام میں اس قدر غرق ہیں کہ اعلیٰ سے اعلی رہائش، اعلی سے اعلیٰ لباس، اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیاں، اعلیٰ سے اعلیٰ منصبوں پر فائز ہو کر بھی کبھی انہیں نانِ جویں پر گزارہ کرنا پڑ جائے یا کبھی اعلیٰ بستروں کے بجائے مسجد کی صفوں پر رات گزارنا پڑ جائے تو کہتے ہیں کہ ہماری قدر نہیں کی گئی’’ ہمیں حیثیت نہیں دی گئی‘‘ ’’ہماری توہین کی گئی ہے‘‘‘ ’’کیا ہمیں یتیم اور لاوارث سمجھ رکھا ہے۔‘‘ وغیره ذلك من الأقوال۔الله اکبر کبیراً! اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ورحم اللّٰہ عبدا قال آمینا۔