شمائل ترمذی - حدیث 321

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَةً لَهُ تَقْضِي فَاحْتَضَنَهَا فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَاتَتْ وَهِيَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَصَاحَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَقَالَ - يَعْنِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((أَتَبْكِينَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ؟)) فَقَالَتْ: أَلَسْتُ أَرَاكَ تَبْكِي؟ قَالَ: ((إِنِّي لَسْتُ أَبْكِي، إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ بِكُلِّ خَيْرٍ عَلَى كُلِّ حَالٍ، إِنَّ نَفْسَهُ تُنْزَعُ مِنْ بَيْنِ جَنْبَيْهِ، وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 321

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری کا بیان ’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی قریب المرگ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور اپنی گود میں اٹھایا تو اسی حالت میں فوت ہو گئی جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں تھی۔ ام ایمن چلا کر رونے لگیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ہوں ؟ ارشاد فرمایا: ’’میں رو نہیں رہا ہوں، یہ تو رحمت کے آنسو ہیں۔ بے شک مومن ہر حال میں خیر میں ہی ہوتا ہے جب اس کے پہلو سے اس کی روح پرواز کرتی ہے تو وہ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے۔‘‘
تشریح : معلوم ہوا کہ میت پر چلا چلا کر رونا منع ہے۔ پیٹنا، بال نوچنا، گریبان چاک کرنا، سینہ کوبی کرنا، منہ پر طمانچے مارنا اور بین کرنا، رونے کی یہ تمام اقسام قطعی طور پر ممنوع ہیں جیسا کہ ان احادیث میں بڑی شدت سے ایسے رونے سے روکا گیا ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَ دعا بِدَعْوَی الْجَاهِلِیَّةِ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود، حدیث:۱۲۹۷۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب تحریم ضرب الخدود...، حدیث:۱۰۳۔) ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو منہ پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح چیخے چلائے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی: ((لَعَن رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ)) (سنن أبي داود، کتاب الجنائز، باب في النوح، حدیث:۳۱۲۸۔) ’’جو نوحہ کرتی ہے اور جو سنتی ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنَا بَرِءٌٔ مِمَّنْ حَلَقَ وَصَلَقَ وَخَرَقَ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب ما ینهي من الحلق عند المصیبة، حدیث:۱۲۹۶ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان باب تحریم ضرب الخدود، حدیث:۱۰۴(۲۸۸) واللفظ له۔) ’’میں اس شخص سے بری اور بیزار ہوں جو (اظہارِ غم کے لیے) سر منڈوائے اور چلا چلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے۔‘‘ البتہ صرف آنسو بہانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کو ارشاد فرمایا کہ میرا رونا تیرے رونے کی طرح نہیں بلکہ یہ رحمتِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں رکھی ہے ایک روایت میں ہے۔ ((جَعَلَهَا فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ، فَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ))( صحیح بخاري، کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ أهله ...‘‘، حدیث:۱۲۸۴۔ صحیح مسلم (۹۲۳)۔) ’’کہ یہ رحمت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں رحم والوں پر ہی رحمت کرتا ہے۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت یوں ارشاد فرمایا: ((إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزُنُ وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یُرْضِی الرَّبَّ وَإِنَّا عَلَی فِرَاقِكَ یَا إِبْرَاهِیْمُ لَمُحْزَنُوْنَ))( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’إِنَّا بِكَ لَمَحْزُوْنُوْنَ‘‘، حدیث:۱۳۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته صلى الله علیه وسلم الصبیان، حدیث:۲۳۱۵۔) ’’آنکھ آنسو بہا رہی ہے دل غمگین ہے مگر ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کو اچھا لگے۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمزدہ ہیں۔‘‘ ایک اشکال اور اس کا حل حدیث الباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فوت ہونے کا ذکر ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھا کر اپنے سینہ ٔ مبارک سے لگایا پھر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی فوت ہو گئیں۔ (سنن نسائي، کتاب الجنائز، باب في البکاء علی المیت، حدیث:۱۸۴۴۔)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث اشکال سے خالی نہیں کیونکہ چھوٹی بیٹی سے مراد اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حقیقی بیٹی مراد ہے تو یہ مشکل ہے کیونکہ اہل سیر اور محدثین نیز تواریخ لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیٹیاں بڑی عمر میں فوت ہوئیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی مراد ہے تو اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت مجازی ہو گی۔ مگر اس سلسلہ میں ایک واقعہ مسند احمد بن حنبل میں اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو، جو ابو العاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔( مسند أحمد (۵؍۲۰۴۔۲۰۵)۔) حالتِ نزع میں لایا گیا۔ مگر یہ بھی مشکل ہے کیونکہ امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بقید حیات رہیں یہاں تک کہ ان سے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد شادی کی۔ لہٰذا مسند احمد بن حنبل والی روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ قریب المرگ ہو گئیں تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت عطا فرما دی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں موت کے متعلق راوی کو وہم ہو گیا ہو۔ لہٰذا اس سے مراد یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا بیٹا ہو سکتا ہے کیونکہ عبداللہ بن عثمان کے متعلق۔ جو کہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ ثابت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں فوت ہوئے تھے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو جاری ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰهُ مِنْ عِبَادِہٖ الرُّحَمَاءَ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ أهله علیه ...‘‘، حدیث:۱۲۸۴۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، حدیث:۹۲۳۔)’’یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔‘‘ مسند بزار میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا کچھ بوجھل ہوا تو انہوں نے اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حالتِ نزع میں بھیجا۔( مسند البزار (الکشف:۸۰۷)۔) اس کے متعلق اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ لڑکا بچپن میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں فوت ہوا۔ اس کا نام محسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھا۔ مگر درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ بھیجنے والی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھی اور ان کی بیٹی حضرت امامہ بنتِ ابی العاص ہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے صحت یاب کردیا۔ واللہ اعلم
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن نسائي، کتاب الجنائز (۴؍۱۸۴۲)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۲۶۸، ۲۹۷ برقم ۲۴۱۲، ۲۷۰۴)، مسند عبد بن حمید (۵۹۳)۔ معلوم ہوا کہ میت پر چلا چلا کر رونا منع ہے۔ پیٹنا، بال نوچنا، گریبان چاک کرنا، سینہ کوبی کرنا، منہ پر طمانچے مارنا اور بین کرنا، رونے کی یہ تمام اقسام قطعی طور پر ممنوع ہیں جیسا کہ ان احادیث میں بڑی شدت سے ایسے رونے سے روکا گیا ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَ دعا بِدَعْوَی الْجَاهِلِیَّةِ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود، حدیث:۱۲۹۷۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب تحریم ضرب الخدود...، حدیث:۱۰۳۔) ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو منہ پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح چیخے چلائے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی: ((لَعَن رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ)) (سنن أبي داود، کتاب الجنائز، باب في النوح، حدیث:۳۱۲۸۔) ’’جو نوحہ کرتی ہے اور جو سنتی ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنَا بَرِءٌٔ مِمَّنْ حَلَقَ وَصَلَقَ وَخَرَقَ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب ما ینهي من الحلق عند المصیبة، حدیث:۱۲۹۶ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان باب تحریم ضرب الخدود، حدیث:۱۰۴(۲۸۸) واللفظ له۔) ’’میں اس شخص سے بری اور بیزار ہوں جو (اظہارِ غم کے لیے) سر منڈوائے اور چلا چلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے۔‘‘ البتہ صرف آنسو بہانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کو ارشاد فرمایا کہ میرا رونا تیرے رونے کی طرح نہیں بلکہ یہ رحمتِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں رکھی ہے ایک روایت میں ہے۔ ((جَعَلَهَا فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ، فَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ))( صحیح بخاري، کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ أهله ...‘‘، حدیث:۱۲۸۴۔ صحیح مسلم (۹۲۳)۔) ’’کہ یہ رحمت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں رحم والوں پر ہی رحمت کرتا ہے۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت یوں ارشاد فرمایا: ((إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزُنُ وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یُرْضِی الرَّبَّ وَإِنَّا عَلَی فِرَاقِكَ یَا إِبْرَاهِیْمُ لَمُحْزَنُوْنَ))( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’إِنَّا بِكَ لَمَحْزُوْنُوْنَ‘‘، حدیث:۱۳۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته صلى الله علیه وسلم الصبیان، حدیث:۲۳۱۵۔) ’’آنکھ آنسو بہا رہی ہے دل غمگین ہے مگر ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کو اچھا لگے۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمزدہ ہیں۔‘‘ ایک اشکال اور اس کا حل حدیث الباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فوت ہونے کا ذکر ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھا کر اپنے سینہ ٔ مبارک سے لگایا پھر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی فوت ہو گئیں۔ (سنن نسائي، کتاب الجنائز، باب في البکاء علی المیت، حدیث:۱۸۴۴۔)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث اشکال سے خالی نہیں کیونکہ چھوٹی بیٹی سے مراد اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حقیقی بیٹی مراد ہے تو یہ مشکل ہے کیونکہ اہل سیر اور محدثین نیز تواریخ لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیٹیاں بڑی عمر میں فوت ہوئیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی مراد ہے تو اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت مجازی ہو گی۔ مگر اس سلسلہ میں ایک واقعہ مسند احمد بن حنبل میں اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو، جو ابو العاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔( مسند أحمد (۵؍۲۰۴۔۲۰۵)۔) حالتِ نزع میں لایا گیا۔ مگر یہ بھی مشکل ہے کیونکہ امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بقید حیات رہیں یہاں تک کہ ان سے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد شادی کی۔ لہٰذا مسند احمد بن حنبل والی روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ قریب المرگ ہو گئیں تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت عطا فرما دی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں موت کے متعلق راوی کو وہم ہو گیا ہو۔ لہٰذا اس سے مراد یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا بیٹا ہو سکتا ہے کیونکہ عبداللہ بن عثمان کے متعلق۔ جو کہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ ثابت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں فوت ہوئے تھے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو جاری ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰهُ مِنْ عِبَادِہٖ الرُّحَمَاءَ)) (صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ أهله علیه ...‘‘، حدیث:۱۲۸۴۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، حدیث:۹۲۳۔)’’یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔‘‘ مسند بزار میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا کچھ بوجھل ہوا تو انہوں نے اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حالتِ نزع میں بھیجا۔( مسند البزار (الکشف:۸۰۷)۔) اس کے متعلق اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ لڑکا بچپن میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں فوت ہوا۔ اس کا نام محسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھا۔ مگر درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ بھیجنے والی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھی اور ان کی بیٹی حضرت امامہ بنتِ ابی العاص ہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے صحت یاب کردیا۔ واللہ اعلم