كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: انْكسفَتِ الشَّمْسُ يَوْمًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، حَتَّى لَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَلَمْ يَكَدْ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَلَمْ يَكَدْ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَجَعَلَ يَنْفُخُ وَيَبْكِي، وَيَقُولُ: ((رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؟ وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُكَ)) . فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا انْكَسَفَا فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری کا بیان
’’سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دن سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر قیام فرمایا کہ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں، اور پھر رکوع اتنا لمبا کیا کہ گویا اس سے اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں، پھر سرمبارک اٹھایا تو قومہ میں بھی اتنی دیر کھڑے رہے کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر مبارک اٹھایا تو اتنا طویل جلسہ کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا سجدہ کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سجدہ بھی اتنا طویل کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سرمبارک اٹھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران آہیں بھرتے اور روتے رہے اور فرماتے ’’اے میرے پروردگار! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب میں ان میں موجود ہوں تو ان کو عذاب نہیں کرے گا؟ اے میرے پروردگار! کیا تو نے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک یہ تجھ سے استغفار کرتے رہیں گے تو ان کو عذاب نہیں دے گا؟ اور ہم تجھ سےاستغفار کرتے ہیں۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: یقیناً سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا جب یہ گہنا جائیں تو فوراً اللہ تعالیٰ عزوجل کی یاد کی طرف دوڑو۔‘‘
تشریح :
سورج گرہن بارے غلط عقائد اور ان کا ابطال
ایامِ جاہلیت میں لوگوں کا خیال تھا کہ زمین میں تغیر و تبدل کی وجہ سے یا کسی فوت ہونے یا کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے آسمان میں تغیر و تبدل ہوتا ہے اور آفاقی چیزیں مثلاً سورج اور چاند گہنا جاتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نہایت غلط اور بے ہودہ عقیدہ کا ابطال کیا اور انہیں یہ تعلیم دی کہ یہ عقیدہ باطل اور غلط ہے بلکہ سورج اور چاند تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کی فرمانبردار ہے نہ تو ان کا کسی دیگر مخلوق پر کوئی غلبہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے آپ سے کوئی نقصان دہ اثرات ہٹا سکتے ہیں۔ اتفاقاً جس دن سورج گرہن ہوا اسی دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندِ ارجمند ابراہیم کا انتقال ہوا تھا تو یہ بات مشہور ہو گئی کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا فوت ہوا ہے اس لیے سورج گرہن ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شدت سے اس کی تردید فرما دی اور ارشاد فرمایا: کہ جب چاند یا سورج گہنا جائے تو نماز پڑھو، ذکر کرو، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے استغفار کرو۔
سورج گرہن کی نماز کا طریقہ:
کسوف (گرہن) سورج کا ہو یا چاند کا، اس موقع پر دو رکعت پڑھنا مسنون ہے اور اس نماز میں قراء ت بالجہر ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃِ خسوف میں قراء ت بالجہر کی پھر رکوع کیا پھر رکوع سے اٹھ کر قراء ت شروع کر دی پھر رکوع کیا اس طرح دو رکعات نماز میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الصلوة، باب من قال یرکع رکعتین (۱؍۱۱۹۳)، سنن نسائي، کتاب الکسوف، باب نوع آخر (؍۱۴۹۵)، مسند أحمد بن حنبل (۲؍۱۵۹، ۱۶۳،۱۸۸،۱۹۸) صحیح ابن خزیمة (۹۰۱، ۱۳۸۹،۱۳۹۲، ۱۳۹۳) علامہ احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے اس میں ایک رکوع کا ذکر ہے حالانکہ متفق علیہ روایات میں ایک سے زائد رکوعات کا ذکر ہے اس بناء پر ایک رکوع والی روایت کو باوجود صحیح السند ہونے کے شاذ کہا جائے گا۔
سورج گرہن بارے غلط عقائد اور ان کا ابطال
ایامِ جاہلیت میں لوگوں کا خیال تھا کہ زمین میں تغیر و تبدل کی وجہ سے یا کسی فوت ہونے یا کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے آسمان میں تغیر و تبدل ہوتا ہے اور آفاقی چیزیں مثلاً سورج اور چاند گہنا جاتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نہایت غلط اور بے ہودہ عقیدہ کا ابطال کیا اور انہیں یہ تعلیم دی کہ یہ عقیدہ باطل اور غلط ہے بلکہ سورج اور چاند تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کی فرمانبردار ہے نہ تو ان کا کسی دیگر مخلوق پر کوئی غلبہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے آپ سے کوئی نقصان دہ اثرات ہٹا سکتے ہیں۔ اتفاقاً جس دن سورج گرہن ہوا اسی دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندِ ارجمند ابراہیم کا انتقال ہوا تھا تو یہ بات مشہور ہو گئی کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا فوت ہوا ہے اس لیے سورج گرہن ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شدت سے اس کی تردید فرما دی اور ارشاد فرمایا: کہ جب چاند یا سورج گہنا جائے تو نماز پڑھو، ذکر کرو، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے استغفار کرو۔
سورج گرہن کی نماز کا طریقہ:
کسوف (گرہن) سورج کا ہو یا چاند کا، اس موقع پر دو رکعت پڑھنا مسنون ہے اور اس نماز میں قراء ت بالجہر ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃِ خسوف میں قراء ت بالجہر کی پھر رکوع کیا پھر رکوع سے اٹھ کر قراء ت شروع کر دی پھر رکوع کیا اس طرح دو رکعات نماز میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔