شمائل ترمذی - حدیث 32

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرَجُّلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((كُنْتُ أُرَجِّلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا حَائِضٌ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 32

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھی کرنے کا بیان ’’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو کنگھی کرتی تھی درایں حال کہ میں حائضہ ہوتی۔ ‘‘
تشریح : اُرَجِّلُ: رَجَّلَ یُرَجِّلُ۔ الشَّعْرَ: بالوں کو کنگھی کرنا۔ حدیث الباب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کو حیض کی حالت میں کنگھی کرتی تھی، صحیح بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ کسی شخص نے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا حائضہ عورت میری خدمت کرسکتی ہے اور کیا میرے جنبی ہونے کی حالت میں میری عورت میرے قریب ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ سب معمولی باتیں ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ مجھے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بتایا کہ وہ حیض کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کو کنگھی کیا کرتیں تھیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک حجرے کے قریب کرتے اور میں کنگھی کرتی، حالانکہ میں حائضہ ہو تی۔ ( صحیح بخاري، کتاب الحیض، باب غسل الحائض رأس زوجها، حدیث:۲۹۶۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فَاِنَّهَا صَرِیْحَةٌ فِیْ ذٰلِكَ وَهُوَ دَالٌّ عَلیٰ أَنَّ ذَاتَ الْحَائِضِ طَاهِرَةٌ وَعَلیٰ أَنَّ حَیْضَهَا لَا یَمْنَعُ مُلَامَسَتَهَا۔‘‘ (فتح الباري (۱؍۸۱۶) طبع جدید۔)’’ یعنی یہ حدیث اس بارے میں صریح ہے اور دلالت کر رہی ہے کہ حائضہ کی ذات طاہر ہے، اور اس کا حیض اس کے لمس اور اس کے ساتھ مخالطت میں مانع نہیں ہے۔ ‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے جنابت کو حیض پر قیاس کیا ہے اور یہ قیاس جلی ہے۔ نیز دیگر خدمت کو ترجیل پر قیاس کیا ہے، اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ حائضہ کا بدن اور اس کا پسینہ پاک ہے، اور حالتِ حیض میں مباشرتِ ممنوعہ صرف جماع ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( وَفِیْهِ جَوَازُ اِسْتِخْدَامِ الزَّوْجَةِ فِی الْغُسْلِ وَالطَّبْخِ وَالْخُبْزِ وَغَیْرِهَا بِرَضاهَا وَعَلٰی هٰذَا تَظَاهَرَتْ دَلَائِلُ السُّنَّةِ وَعَمَلُ السَّلَفِ وَ إِجْمَاعُ الْأُمَّةِ، وَأَمَّا بِغَیْرِ رَضَاهَا فَلَا یَجُوْزُ لِأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَیْهَا تَمْکِیْنُ الزَّوْجِ مِنْ نَفْسِهَا وَمُلَازَمَةُ بَیْتِهِ فَقَط۔ وَاللّٰهُ أعْلَمُ۔)) (شرح مسلم للنووي (۱؍۴۸۱)۔) ’’ یعنی اس حدیث میں عورت سے کھانا وغیرہ پکانے اور غسل وغیرہ کی خدمت لینے کا جواز پا یا جاتا ہے جبکہ یہ کام اس کی رضا سے ہوں، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عمل صحابہ رضی الله عنہم اور اجماع امت اسی پر دلالت کرتے ہیں، اور اس کی رضا کے بغیر اس سے یہ خدمت لینا جائز نہیں، کیونکہ اس کے ذمہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ صرف اپنی ذات پر خاوند کو قبضہ وکنڑول دے دے اور ہر وقت وہ اس کے گھر میں رہے۔ ‘‘ والله اعلم
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الحیض (۲۹۵)، کتاب اللباس (۵۹۲۵)، صحیح مسلم، کتاب الحیض (۲۴۴)۔ اُرَجِّلُ: رَجَّلَ یُرَجِّلُ۔ الشَّعْرَ: بالوں کو کنگھی کرنا۔ حدیث الباب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کو حیض کی حالت میں کنگھی کرتی تھی، صحیح بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ کسی شخص نے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا حائضہ عورت میری خدمت کرسکتی ہے اور کیا میرے جنبی ہونے کی حالت میں میری عورت میرے قریب ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ سب معمولی باتیں ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ مجھے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بتایا کہ وہ حیض کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کو کنگھی کیا کرتیں تھیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک حجرے کے قریب کرتے اور میں کنگھی کرتی، حالانکہ میں حائضہ ہو تی۔ ( صحیح بخاري، کتاب الحیض، باب غسل الحائض رأس زوجها، حدیث:۲۹۶۔) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فَاِنَّهَا صَرِیْحَةٌ فِیْ ذٰلِكَ وَهُوَ دَالٌّ عَلیٰ أَنَّ ذَاتَ الْحَائِضِ طَاهِرَةٌ وَعَلیٰ أَنَّ حَیْضَهَا لَا یَمْنَعُ مُلَامَسَتَهَا۔‘‘ (فتح الباري (۱؍۸۱۶) طبع جدید۔)’’ یعنی یہ حدیث اس بارے میں صریح ہے اور دلالت کر رہی ہے کہ حائضہ کی ذات طاہر ہے، اور اس کا حیض اس کے لمس اور اس کے ساتھ مخالطت میں مانع نہیں ہے۔ ‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے جنابت کو حیض پر قیاس کیا ہے اور یہ قیاس جلی ہے۔ نیز دیگر خدمت کو ترجیل پر قیاس کیا ہے، اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ حائضہ کا بدن اور اس کا پسینہ پاک ہے، اور حالتِ حیض میں مباشرتِ ممنوعہ صرف جماع ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( وَفِیْهِ جَوَازُ اِسْتِخْدَامِ الزَّوْجَةِ فِی الْغُسْلِ وَالطَّبْخِ وَالْخُبْزِ وَغَیْرِهَا بِرَضاهَا وَعَلٰی هٰذَا تَظَاهَرَتْ دَلَائِلُ السُّنَّةِ وَعَمَلُ السَّلَفِ وَ إِجْمَاعُ الْأُمَّةِ، وَأَمَّا بِغَیْرِ رَضَاهَا فَلَا یَجُوْزُ لِأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَیْهَا تَمْکِیْنُ الزَّوْجِ مِنْ نَفْسِهَا وَمُلَازَمَةُ بَیْتِهِ فَقَط۔ وَاللّٰهُ أعْلَمُ۔)) (شرح مسلم للنووي (۱؍۴۸۱)۔) ’’ یعنی اس حدیث میں عورت سے کھانا وغیرہ پکانے اور غسل وغیرہ کی خدمت لینے کا جواز پا یا جاتا ہے جبکہ یہ کام اس کی رضا سے ہوں، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عمل صحابہ رضی الله عنہم اور اجماع امت اسی پر دلالت کرتے ہیں، اور اس کی رضا کے بغیر اس سے یہ خدمت لینا جائز نہیں، کیونکہ اس کے ذمہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ صرف اپنی ذات پر خاوند کو قبضہ وکنڑول دے دے اور ہر وقت وہ اس کے گھر میں رہے۔ ‘‘ والله اعلم