كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اقْرَأْ عَلَيَّ)) فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقَرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ: ((إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي)) ، فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ، حَتَّى بَلَغْتُ ﴿وَجِئِنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ [النساء: 41] قَالَ: فَرَأَيْتُ عَيْنَيْ رَسُولِ اللَّهِ تَهْمِلَانِ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری کا بیان
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو قرآن مجید نازل ہوا ہے پھر بھی کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں میں کسی دوسرے شخص سے قرآن سننا چاہتا ہوں ‘‘ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ) میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی اور جب ﴿وَجِئْنَا بِكَ عَلَی هٰؤُلَاءِ شَهِیْدًا﴾پر پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘
تشریح :
یہ سورۃ نساء کی ۴۱ نمبر آیت ہے مکمل آیت یوں ہے:
﴿فَکَیْفَ إِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ شَهِیْدًا﴾
’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک گواہ لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں پر ہم گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘
اس آیت میں قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں امتوں کی پیشی کا ذکر ہے کہ جب لوگ اپنے جرائم کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو کسی نے اللہ کا راستہ بتایا ہی نہیں تو ہر امت کا نبی گواہی دے گا، پھر ان سب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ یا اللہ! یہ سچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس میں گذشتہ انبیاء اور انکی قوموں کی سرگذشت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا۔ اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔ سورۂ نساء میں جب اس اندوہناک منظر کا ذکر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
تنبیہ:....مسئلہ حاضر و ناظر
بعض کوتاہ بین لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لیے یہ لوگ ’’شہید‘‘ (گواہ) کے معنی ’’حاضر و ناظر‘‘ کے کرتے ہیں اور یوں نبی اکرم کو ’’حاضر و ناظر‘‘ باور کراتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حاضر ناظر‘‘ سمجھنا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو کہ شرک ہے کیونکہ حاضر و ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ ’’شہید‘‘ کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہو سکتا ہے؟ اس یقینی علم کی بنیاد پر خود امتِ محمدیہ کو بھی قرآن کریم نے ﴿شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ﴾(تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ)کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امتِ محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ أعاذنا اللّٰه منه۔(دیکھیے تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء آیت نمبر ۴۱)
تخریج :
صحیح بخاری، کتاب التفسیر (۸؍۴۵۸۲)، و کتاب فضائل القرآن (۸؍۵۰۰۵)، صحیح مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین، باب فضل استماع القرآن (۱؍۲۴۷۔۲۴۸)۔
یہ سورۃ نساء کی ۴۱ نمبر آیت ہے مکمل آیت یوں ہے:
﴿فَکَیْفَ إِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ شَهِیْدًا﴾
’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک گواہ لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں پر ہم گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘
اس آیت میں قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں امتوں کی پیشی کا ذکر ہے کہ جب لوگ اپنے جرائم کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو کسی نے اللہ کا راستہ بتایا ہی نہیں تو ہر امت کا نبی گواہی دے گا، پھر ان سب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ یا اللہ! یہ سچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس میں گذشتہ انبیاء اور انکی قوموں کی سرگذشت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا۔ اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔ سورۂ نساء میں جب اس اندوہناک منظر کا ذکر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
تنبیہ:....مسئلہ حاضر و ناظر
بعض کوتاہ بین لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لیے یہ لوگ ’’شہید‘‘ (گواہ) کے معنی ’’حاضر و ناظر‘‘ کے کرتے ہیں اور یوں نبی اکرم کو ’’حاضر و ناظر‘‘ باور کراتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حاضر ناظر‘‘ سمجھنا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو کہ شرک ہے کیونکہ حاضر و ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ ’’شہید‘‘ کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہو سکتا ہے؟ اس یقینی علم کی بنیاد پر خود امتِ محمدیہ کو بھی قرآن کریم نے ﴿شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ﴾(تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ)کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امتِ محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ أعاذنا اللّٰه منه۔(دیکھیے تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء آیت نمبر ۴۱)