كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ ،أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارِكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ((أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُكَاءِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری کا بیان
’’سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح آتی تھی جیسا کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘
تشریح :
عمل میں حسن علم کی وجہ سے ہوتا ہے:
اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے کمال درجہ خوف و خشیت کا اظہار ہوتا ہے اور عبادت میں نہایت خشوع و خضوع معلوم ہوتا ہے صحیح بخاری میں اس کی وجہ منقول ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنِّیْ لَأَعْلَمُکُمْ بِاللّٰهِ وَأَشَدُّکُمْ لَهٗ خَشْیَةً)) (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب من لم یواجه الناس بالعتاب، حدیث:۶۱۰۱۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب علمه صلى الله علیه وسلم بالله تعالیٰ، حدیث:۲۳۵۶ بلفظ ’’إِنِّيْ لَأَعْلَمُهُمْ بِاللّٰهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهٗ خَشْیَةً‘‘۔)
’’کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور (اسی لیے) میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں۔‘‘
صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا)) (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ...‘‘ حدیث:۶۴۸۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلى الله علیه وسلم ...، حدیث:۱۳۵۹۔)
’’اگر تم جان لو وہ کچھ جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ رونے لگو اور بہت کم ہنسو۔‘‘
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے سنن أبي داؤد،کتاب الصلوة، باب البکاء فی الصلوة (۱؍۹۰۴)، سنن نسائي، کتاب السهو، باب البکاء فی الصلوة (۳؍۱۲۱۳)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۵)، صحیح ابن خزیمة (۲؍۵۲) مسند أبي یعلی موصلي (۲؍۲۵۶ برقم ۱۵۹۶)، مستدرك حاکم (۱؍۲۶۴)، سنن بیهقي (۲؍۲۵۱)، شرح السنة (۳؍۲۴۵)، صحیح ابن حبان (۲؍۳۷۷)۔
عمل میں حسن علم کی وجہ سے ہوتا ہے:
اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے کمال درجہ خوف و خشیت کا اظہار ہوتا ہے اور عبادت میں نہایت خشوع و خضوع معلوم ہوتا ہے صحیح بخاری میں اس کی وجہ منقول ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنِّیْ لَأَعْلَمُکُمْ بِاللّٰهِ وَأَشَدُّکُمْ لَهٗ خَشْیَةً)) (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب من لم یواجه الناس بالعتاب، حدیث:۶۱۰۱۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب علمه صلى الله علیه وسلم بالله تعالیٰ، حدیث:۲۳۵۶ بلفظ ’’إِنِّيْ لَأَعْلَمُهُمْ بِاللّٰهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهٗ خَشْیَةً‘‘۔)
’’کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور (اسی لیے) میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں۔‘‘
صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا)) (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ’’لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ...‘‘ حدیث:۶۴۸۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلى الله علیه وسلم ...، حدیث:۱۳۵۹۔)
’’اگر تم جان لو وہ کچھ جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ رونے لگو اور بہت کم ہنسو۔‘‘