شمائل ترمذی - حدیث 313

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: ((كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ)) . فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 313

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ قراء ت کا بیان ’’ عبداللہ بن ابی قیس فرماتے ہیں، میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کے بارے میں سوال کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کی نماز میں ) قراء ت مخفی کرتے تھے یا بلند آواز سے کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طرح قراء ت کرتے تھے۔ کبھی پوشیدہ آواز میں قراء ت کرتے اور کبھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ اس نے دین کے معاملہ میں بڑی وسعت اور کشادگی فرمائی ہے۔ ‘‘
تشریح : ٭ یعنی صلوٰۃ اللیل دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جہراً پڑھنا اقویٰ اور انفع ہے کیوں کہ اس طرح توجہ مکمل طور پر قراء ت کی طرف ہوتی ہے اور عبادت میں نشاط اور سننے میں بھی کمال حاصل ہوتا ہے۔ نیز بعض اہل خانہ کو بیدار کرنے کا فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ عمل ریاء سے پاک ہو۔ ٭ ’’اس اللہ کی تعریف جس نے دین کے معاملہ ...‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس بارے میں کوئی پابندی نہیں لگائی۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ؛ ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا ﴾....’’ یعنی اپنی قراء ت نہ تو بہت اونچی کرو اور نہ ہی بہت آہستہ، بلکہ اس کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قراء ت سنی جو آہستہ پڑھ رہے تھے اور سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قراء ت سنی کہ وہ بلند آواز سے پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک سے وجہ پوچھی تو سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں جس کو سنانا چاہتا ہوں وہ میری حاجت جانتا ہے اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں شیطان کو بھگاتا ہوں، سوئے ہوؤں کو بیدار کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ’’ اپنی قراء ت تھوڑی سی آہستہ آواز میں کرو۔ ‘‘ اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ اپنی قراء ت تھوڑی سی اونچی کرو۔ ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب التطوع، باب رفع الصوت بالقراءة في صلاة اللیل، حدیث:۱۳۲۹۔ سنن ترمذي (۴۴۷)۔)
تخریج : صحیح بخاري، کتاب خلق افعال العباد، (ص: ۱۰۱)۔ صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب جواز نوم الجنب (۱؍ ۲۶، برقم: ۲۴۹) سنن الترمذي، أبواب الصلوٰة (۲؍ ۴۴۹) وأبواب فضائل القرآن (۵؍۲۹۲۴) سنن أبي داود، کتاب الصلوٰة (۲؍ ۱۴۳۷) سنن النسائي، کتاب الغسل (۱؍ ۱۹۹) وکتاب قیام اللیل (۳؍ ۲۲۴) سنن ابن ماجة، کتاب إقامة الصلوٰة (۱؍ ۱۳۵۴) صحیح ابن خزیمة (۱۱۶۰) مسند أحمد بن حنبل (۶؍ ۴۷، ۱۳۸۔۱۴۹، ۳۷۳)۔ ٭ یعنی صلوٰۃ اللیل دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جہراً پڑھنا اقویٰ اور انفع ہے کیوں کہ اس طرح توجہ مکمل طور پر قراء ت کی طرف ہوتی ہے اور عبادت میں نشاط اور سننے میں بھی کمال حاصل ہوتا ہے۔ نیز بعض اہل خانہ کو بیدار کرنے کا فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ عمل ریاء سے پاک ہو۔ ٭ ’’اس اللہ کی تعریف جس نے دین کے معاملہ ...‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس بارے میں کوئی پابندی نہیں لگائی۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ؛ ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا ﴾....’’ یعنی اپنی قراء ت نہ تو بہت اونچی کرو اور نہ ہی بہت آہستہ، بلکہ اس کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قراء ت سنی جو آہستہ پڑھ رہے تھے اور سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قراء ت سنی کہ وہ بلند آواز سے پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک سے وجہ پوچھی تو سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں جس کو سنانا چاہتا ہوں وہ میری حاجت جانتا ہے اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں شیطان کو بھگاتا ہوں، سوئے ہوؤں کو بیدار کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ’’ اپنی قراء ت تھوڑی سی آہستہ آواز میں کرو۔ ‘‘ اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ اپنی قراء ت تھوڑی سی اونچی کرو۔ ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب التطوع، باب رفع الصوت بالقراءة في صلاة اللیل، حدیث:۱۳۲۹۔ سنن ترمذي (۴۴۷)۔)