شمائل ترمذی - حدیث 312

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ يَقُولُ: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ [الفاتحة: 2] ثُمَّ يَقِفُ، ثُمَّ يَقُولُ: ﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ [الفاتحة: 1] ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَأُ ﴿مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 312

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ قراء ت کا بیان ’’ اُمّ المؤمنین سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے وقت ہر آیت پر وقف فرماتے تھے۔ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾پڑھتے تو وقف فرماتے۔ ﴿الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ﴾پڑھتے تو وقف فرماتے اور ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾(بغیر الف کے مَلِكِ) پڑھتے۔ ‘‘
تشریح : یَقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھول کھول کر آیات پڑھتے۔ یعنی اپنی قراء ت الگ کرکے پڑھتے، فواصل پر وقف فرماتے۔ تَقْطِیْع کا معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ اس کی وضاحت خود حدیث میں ہی آگئی ہے کہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾پڑھ کر ٹھہرتے، پھر ﴿الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ﴾پڑھتے۔ پھر ٹھہرتے اور ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾پڑھتے۔ یعنی آیات کے خاتمہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقف فرماتے۔ امام بیہقی اور حلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر آیت پر وقف کرنا سنت ہے۔( شعب الإیمان للبیهقي (۴؍۴۴۳)۔)صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات کے سرے پر ٹھہرتے تھے، اگرچہ اس کا تعلق مابعد کلام سے ہی کیوں نہ ہو۔ جو قراء کہتے ہیں کہ جہاں کلام ختم ہو وہاں پر وقف کیا جائے تو ایسے قراء کی اتباع نہ کی جائے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری ضروری ہے، اور اسی میں فضل و کمال ہے۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن الترمذي، أبواب القراء ات، باب في فاتحة الکتاب (۵؍ ۲۹۲۷) سنن أبي داود، کتاب الحروف والقراء ات (۴؍ ۴۰۰۱) السنن الکبریٰ للبیهقي (۲؍ ۴۴) مستدرك حاکم (۲؍ ۲۳۱، ۲۳۲) مسند أحمد بن حنبل (۶؍ ۳۰۲)۔ امام البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے۔ (۳۴۳)۔ یَقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھول کھول کر آیات پڑھتے۔ یعنی اپنی قراء ت الگ کرکے پڑھتے، فواصل پر وقف فرماتے۔ تَقْطِیْع کا معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ اس کی وضاحت خود حدیث میں ہی آگئی ہے کہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾پڑھ کر ٹھہرتے، پھر ﴿الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ﴾پڑھتے۔ پھر ٹھہرتے اور ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾پڑھتے۔ یعنی آیات کے خاتمہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقف فرماتے۔ امام بیہقی اور حلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر آیت پر وقف کرنا سنت ہے۔( شعب الإیمان للبیهقي (۴؍۴۴۳)۔)صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات کے سرے پر ٹھہرتے تھے، اگرچہ اس کا تعلق مابعد کلام سے ہی کیوں نہ ہو۔ جو قراء کہتے ہیں کہ جہاں کلام ختم ہو وہاں پر وقف کیا جائے تو ایسے قراء کی اتباع نہ کی جائے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری ضروری ہے، اور اسی میں فضل و کمال ہے۔