كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ حُمَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَاسْتَاكَ ثُمَّ تَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ مَعَهُ فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ الْبَقَرَةَ فَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ، وَيَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: ((سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)) ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ، وَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ: ((سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)) ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً سُورَةً يَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ عاصم بن حمید فرماتے ہیں میں نے سیّدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ میں ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کرنے کے بعد وضو کیا اور پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کردی، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں سورۂ بقرہ پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت والی جس آیت سے گذرتے، وہاں ٹھہر کر اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے اور عذاب کی جس آیت سے بھی گذرتے، وہاں ٹھہر کر اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اس میں قیام کے برابر ٹھہرے اور رکوع میں یہ دُعا پڑھتے تھے: ((سُبْحَانَ ذِيْ الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظْمَةِ۔)) ....’’ یعنی پاک ہے اللہ جو بڑا زبردست اور بادشاہی، بڑائی اور عظمت والا ہے۔ ‘‘ پھر رکوع کے برابر ہی سجدہ کرتے اور اس میں بھی یہی دُعا: ((سُبْحَانَ ذِيْ الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظْمَةِ۔)) پڑھتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری رکعت میں ) سورۂ آل عمران پڑھی، پھر ایک ایک سورت پڑھتے اور اسی طرح (پہلی رکعت کی طرح) کرتے۔‘‘
تشریح :
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاری کو آیات قرآنیہ کے مضامین کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یعنی عذاب کی آیت پڑھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ مانگے اور جب آیاتِ رحمت پڑھے تو وہاں رُک کر اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرے۔ جب تسبیح کا حکم آئے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرے اور جب اس سے سوال کرنے کا حکم آئے تو وہاں ٹھہر کر ذاتِ کبریاء سے اپنی حاجات و ضروریات کے لیے سوال کرے۔
بَابُ مَا جَاءَ فِيْ صَوْمِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔
والحمد لله علی ذالك
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن أبي داؤد، کتاب الصلوٰة، باب ما یقول الرجل في رکوعه وسجوده (۱؍۸۷۳) سنن النسائي، کتاب التطبیق، باب نوع آخر من الذکر في الرکوع (۲؍ ۱۰۴۸۔ ۱۱۳۱) مسند أحمد بن حنبل (۶؍ ۲۴)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاری کو آیات قرآنیہ کے مضامین کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یعنی عذاب کی آیت پڑھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ مانگے اور جب آیاتِ رحمت پڑھے تو وہاں رُک کر اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرے۔ جب تسبیح کا حکم آئے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرے اور جب اس سے سوال کرنے کا حکم آئے تو وہاں ٹھہر کر ذاتِ کبریاء سے اپنی حاجات و ضروریات کے لیے سوال کرے۔
بَابُ مَا جَاءَ فِيْ صَوْمِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔
والحمد لله علی ذالك