شمائل ترمذی - حدیث 307

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ،أَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ فَقَالَ: ((مَنْ هَذِهِ؟)) قُلْتُ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((عَلَيْكُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا)) ، وَكَانَ أَحَبَّ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 307

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان ’’ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس ایک عورت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ’’یہ فلاں عورت ہے، جو ساری رات سوتی نہیں (بلکہ قیام کرتی ہے)،‘‘ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ اعمال اختیار کرو جن کی تم طاقت رکھتے ہو، اللہ کی قسم! بلاشبہ اللہ تعالیٰ (تمھیں ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، لیکن تم عمل کرنے سے اُکتا جاؤگے۔ ‘‘ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر اس کا عمل کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے۔ ‘‘
تشریح : وعندی امرأة: میرے پاس ایک عورت تھی، دیگر روایات میں اس کی صفت بھی بتائی گئی ہے کہ وہ ’’ حسن الہیئۃ ‘‘ یعنی اچھی حالت والی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ بنو اسد قبیلہ سے تھی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ خولاء بنت تویت بن حبیب بن اسد بن عبدالعزیٰ تھی۔ میانہ روی بہترین عمل ہے: ٭ ’’ وہ اعمال اختیار کرو جن کی تم طاقت رکھتے ہو۔ ‘‘ یعنی جس عمل پر تم مداومت کرسکو وہ کرو، میانہ روی اور اختصار سے کام لو۔ جس چیز کی طاقت نہ ہو، وہ نہ کرو۔ چوں کہ اس عورت کی عبادت میں یہ ذکر کیا گیا تھا، کہ وہ ساری رات عبادت و ریاضت میں گذارتی ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عمل سے منع فرمایا۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ ساری رات کا قیام ناپسندیدہ عمل ہے۔ طاقت سے زیادہ عبادت نہیں کرنا چاہیے: ٭ (( لَا یَمَلُّ اللّٰهُ حَتَّی تَمَلُّوْا۔)) ....’’ اللہ تعالیٰ تمھیں بدلہ دینے سے نہیں اُکتاتا، جب تک تم عمل کرنے سے اُکتا نہ جاؤ۔ ‘‘ ملال اصل میں بوجھل ہونے اور نفرت کرنے پر بولا جاتا ہے جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنا فضل نہیں ہٹاتا جب تک تم تھک کر اس کی عبادت نہ ترک کردو۔ بعض طرقِ حدیث میں یوں الفاظ ہیں کہ؛ ((کَلِّفُوْا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَإِنَّ اللّٰهَ لَا یَمَلُّ مِنَ الثَّوَابِ حَتَّی تَمَلُّوْا مِنَ الْعَمَلِ۔)) (فتح الباري(۱؍۶۸ تحت رقم الحدیث:۴۳)۔ تفسیر ابن جریر (۲۳؍۶۷۸)۔ تفسیر ابن أبي حاتم (۱۲؍۳۴۳)۔)....’’ یعنی جتنی طاقت ہو اتنا عمل کرو، جب تک تم عمل کرنے سے نہ تھک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمھیں اس کی جزا و ثواب دینے سے نہیں اُکتاتا۔ ‘‘ اس حدیث میں عمل میں میانہ روی پر ترغیب دی گئی ہے، نیز اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر کمالِ رحمت و رأفت ظاہر ہوتی ہے، کہ انھیں ایسے اعمال کی راہنمائی فرمائی جن میں ان کی کمال اصلاح ہے کہ جو عمل آسانی سے ہو اور جس پر ہمیشگی کرسکو اس کو اپناؤ، کیوں کہ جو عمل اپنا کر ترک کردیا جائے، اس کے زندگی پر نہایت خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اسی لیے عبادت میں افراط و تفریط سے منع فرمایا۔ عبادت میں اگر کلفت و ثقل پایا جائے تو اس سے عبادت سے دُوری اور نفور پیدا ہوجاتا ہے، اسی لیے فرمایا کہ عبادت میں اعتدال اور نشاط کو ملحوظ رکھو۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الإیمان، باب أحب الدین إلی اللّٰه أدومه (۱؍ ۴۳) وکتاب التهجد (۳؍ ۱۱۵۱) صحیح مسلم، کتاب صلوٰة المسافرین، باب فضیلة العمل الدائم من قیام اللیل وغیره (۱؍ ۲۲۰۔ ۲۲۱) برقم: ۵۴۲۔ وعندی امرأة: میرے پاس ایک عورت تھی، دیگر روایات میں اس کی صفت بھی بتائی گئی ہے کہ وہ ’’ حسن الہیئۃ ‘‘ یعنی اچھی حالت والی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ بنو اسد قبیلہ سے تھی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ خولاء بنت تویت بن حبیب بن اسد بن عبدالعزیٰ تھی۔ میانہ روی بہترین عمل ہے: ٭ ’’ وہ اعمال اختیار کرو جن کی تم طاقت رکھتے ہو۔ ‘‘ یعنی جس عمل پر تم مداومت کرسکو وہ کرو، میانہ روی اور اختصار سے کام لو۔ جس چیز کی طاقت نہ ہو، وہ نہ کرو۔ چوں کہ اس عورت کی عبادت میں یہ ذکر کیا گیا تھا، کہ وہ ساری رات عبادت و ریاضت میں گذارتی ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عمل سے منع فرمایا۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ ساری رات کا قیام ناپسندیدہ عمل ہے۔ طاقت سے زیادہ عبادت نہیں کرنا چاہیے: ٭ (( لَا یَمَلُّ اللّٰهُ حَتَّی تَمَلُّوْا۔)) ....’’ اللہ تعالیٰ تمھیں بدلہ دینے سے نہیں اُکتاتا، جب تک تم عمل کرنے سے اُکتا نہ جاؤ۔ ‘‘ ملال اصل میں بوجھل ہونے اور نفرت کرنے پر بولا جاتا ہے جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنا فضل نہیں ہٹاتا جب تک تم تھک کر اس کی عبادت نہ ترک کردو۔ بعض طرقِ حدیث میں یوں الفاظ ہیں کہ؛ ((کَلِّفُوْا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَإِنَّ اللّٰهَ لَا یَمَلُّ مِنَ الثَّوَابِ حَتَّی تَمَلُّوْا مِنَ الْعَمَلِ۔)) (فتح الباري(۱؍۶۸ تحت رقم الحدیث:۴۳)۔ تفسیر ابن جریر (۲۳؍۶۷۸)۔ تفسیر ابن أبي حاتم (۱۲؍۳۴۳)۔)....’’ یعنی جتنی طاقت ہو اتنا عمل کرو، جب تک تم عمل کرنے سے نہ تھک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمھیں اس کی جزا و ثواب دینے سے نہیں اُکتاتا۔ ‘‘ اس حدیث میں عمل میں میانہ روی پر ترغیب دی گئی ہے، نیز اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر کمالِ رحمت و رأفت ظاہر ہوتی ہے، کہ انھیں ایسے اعمال کی راہنمائی فرمائی جن میں ان کی کمال اصلاح ہے کہ جو عمل آسانی سے ہو اور جس پر ہمیشگی کرسکو اس کو اپناؤ، کیوں کہ جو عمل اپنا کر ترک کردیا جائے، اس کے زندگی پر نہایت خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اسی لیے عبادت میں افراط و تفریط سے منع فرمایا۔ عبادت میں اگر کلفت و ثقل پایا جائے تو اس سے عبادت سے دُوری اور نفور پیدا ہوجاتا ہے، اسی لیے فرمایا کہ عبادت میں اعتدال اور نشاط کو ملحوظ رکھو۔