كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخُصُّ مِنَ الْأَيَامِ شَيْئًا؟ قَالَتْ: ((كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً، وَأَيُّكُمْ يُطِيقُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطِيقُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ امام علقمہ کہتے ہیں میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دن کو عبادت کے لیے مخصوص کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیشہ کا ہوتا۔ تم میں کون ہے جو ایسے طاقت رکھتا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت رکھتے تھے؟ ‘‘
تشریح :
اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی پسندیدہ امر ہے!
عَمَلُهُ دِیْمَةٌ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیشگی والا ہوتا۔ یعنی آپ ایام کو مخصوص نہ کرتے۔ لیکن دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تخصیص کرتے تھے۔ سوموار اور جمعرات کے روزے کے متعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی سنن ترمذي، سنن نسائي، صحیح ابن حبان میں مروی ہے کہ؛ ((کَانَ یَتَحَرَّی صَیَامَ الْاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیْسِ)) (سنن ترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، حدیث:۷۴۵، وقال: حسن غریب۔ سنن نسائي (۲۳۶۴)۔ سنن ابن ماجة (۱۷۳۹)۔ وقد تقدم برقم:۳۰۶۔)....’’ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ کا اہتمام و قصد فرماتے۔ ‘‘ اور سیّدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے پر فرمایا: ’’ ان دِنوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو مَیں روزے سے ہوں۔ (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب في صوم الاثنین والخمیس، حدیث:۲۴۳۶۔ مسند أحمد (۵؍۲۰۰،۲۰۲)۔)
اسی طرح مہینہ کی ابتداء، انتہا اور وسط میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً روزہ پر عمل پیرا ہوتے۔
٭ حدیث الباب کے ظاہری سیاق سے عمل پر ہمیشگی اور مواظبت کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
٭ بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو مسلسل روزے رکھتے ہی رہتے، اور اگر افطار کرنے لگتے تو مسلسل افطار ہی کرتے چلے جاتے۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي صلى الله علیه وسلم وإفطاره، حدیث:۱۹۷۱، ۱۹۷۲۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۱۵۷،۱۱۵۸۔) اس کے مقابل حدیث الباب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک دائمی ہوتا تھا اور دائمی عمل کو پسند فرماتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل کہ بہت زیادہ مسلسل روزے ہی رکھتے چلے جاتے، پھر افطار کرتے تو افطار ہی کرتے چلے جاتے، یہ دائمی عمل تھا۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوام سے مراد اغلبیت ہو، یہ نہیں کہ ہمیشگی ہی مراد ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ایسا عمل ہو، جس پر دوام سے اُمت پر مشقت کا خدشہ نہ ہو تو اس پر دوام کرتے اور جس پر دوام مشقت کا باعث ہو، اس پر دوام نہ کرتے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب تک اس عمل سے بہتر اور افضل عمل سامنے نہ آتا یا امرِ مانع یا کوئی رکاوٹ پیش نہ آجاتی تو اس عمل پر دوام فرماتے۔ والله اعلم
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب هل یخص شیئا من الأیام (۴؍ ۱۹۸۷) وکتاب الرقاق (۱۱؍۶۴۶۶) صحیح مسلم، کتاب صلوٰة المسافرین، باب فضیلة العمل الدائم من قیام اللیل وغیر ذالك (۱؍۲۱۷، برقم: ۵۴۱) سنن أبي داود، کتاب التطوع (۲؍ ۱۳۷) مسند أحمد بن حنبل (۶؍ ۴۳، ۵۵، ۱۷۴، ۱۸۹)۔
اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی پسندیدہ امر ہے!
عَمَلُهُ دِیْمَةٌ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیشگی والا ہوتا۔ یعنی آپ ایام کو مخصوص نہ کرتے۔ لیکن دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تخصیص کرتے تھے۔ سوموار اور جمعرات کے روزے کے متعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی سنن ترمذي، سنن نسائي، صحیح ابن حبان میں مروی ہے کہ؛ ((کَانَ یَتَحَرَّی صَیَامَ الْاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیْسِ)) (سنن ترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، حدیث:۷۴۵، وقال: حسن غریب۔ سنن نسائي (۲۳۶۴)۔ سنن ابن ماجة (۱۷۳۹)۔ وقد تقدم برقم:۳۰۶۔)....’’ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ کا اہتمام و قصد فرماتے۔ ‘‘ اور سیّدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے پر فرمایا: ’’ ان دِنوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو مَیں روزے سے ہوں۔ (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب في صوم الاثنین والخمیس، حدیث:۲۴۳۶۔ مسند أحمد (۵؍۲۰۰،۲۰۲)۔)
اسی طرح مہینہ کی ابتداء، انتہا اور وسط میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً روزہ پر عمل پیرا ہوتے۔
٭ حدیث الباب کے ظاہری سیاق سے عمل پر ہمیشگی اور مواظبت کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
٭ بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو مسلسل روزے رکھتے ہی رہتے، اور اگر افطار کرنے لگتے تو مسلسل افطار ہی کرتے چلے جاتے۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي صلى الله علیه وسلم وإفطاره، حدیث:۱۹۷۱، ۱۹۷۲۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۱۵۷،۱۱۵۸۔) اس کے مقابل حدیث الباب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک دائمی ہوتا تھا اور دائمی عمل کو پسند فرماتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل کہ بہت زیادہ مسلسل روزے ہی رکھتے چلے جاتے، پھر افطار کرتے تو افطار ہی کرتے چلے جاتے، یہ دائمی عمل تھا۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوام سے مراد اغلبیت ہو، یہ نہیں کہ ہمیشگی ہی مراد ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ایسا عمل ہو، جس پر دوام سے اُمت پر مشقت کا خدشہ نہ ہو تو اس پر دوام کرتے اور جس پر دوام مشقت کا باعث ہو، اس پر دوام نہ کرتے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب تک اس عمل سے بہتر اور افضل عمل سامنے نہ آتا یا امرِ مانع یا کوئی رکاوٹ پیش نہ آجاتی تو اس عمل پر دوام فرماتے۔ والله اعلم