كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ،نَا حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن میں خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو صرف رمضان کے روزے بطورِ فرض رہ گئے اور عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس نے چاہا اس دن کا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا اسے چھوڑ دیا۔ ‘‘
تشریح :
عاشوراء کا روزہ زمانۂ جاہلیت سے عرب لوگ رکھتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے، پھر مدینہ منورہ میں جا کر دیکھا تو یہود بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ابتدائی سالوں میں یہ کیفیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس بات میں کوئی حکم الٰہی نہ ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت اختیار کرتے خصوصاً جس بات میں بت پرستوں کی مخالفت ہو۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور اسلام ایک قوت بن کر آشکارا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی مخالفت کو پسند کرنے لگے جیسا کہ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الفرق، حدیث:۵۹۱۷۔)،میں تفصیلاً مذکور ہے۔ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کی موافقت پسند فرمائی اور فرمایا: ’’ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار تو ہم تم سے زیادہ ہیں۔ ‘‘ پھر بعد میں ان کی مخالفت کو پسند فرمایا اور عاشوراء کے ساتھ ایک دن مزید ملانا پسند کیا۔
عاشوراء کے روزے بارے ایک تنبیہ!
عاشوراء کے روزہ کی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت سے کوئی مناسبت نہیں ہے، اہل تشیع کے بعض ذاکرین و واعظین اور ان کی دیکھا دیکھی بریلوی مکتبۂ فکر کے اصحاب عاشوراء کے روزے کو شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو بالکل نازیبا ہے کیوں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت سے تقریباً پچاس سال قبل اسلامی احکام مکمل ہوچکے تھے اور ان احکام میں عاشوراء کا روزہ بھی ہے۔ فافهم إن کنت من العاقلین۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء (۴؍ ۱۸۹۳) صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء (۲؍ ۱۱۳، برقم: ۷۹۲) سنن الترمذي، أبواب الصوم (۳؍ ۷۵۳)۔
عاشوراء کا روزہ زمانۂ جاہلیت سے عرب لوگ رکھتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے، پھر مدینہ منورہ میں جا کر دیکھا تو یہود بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ابتدائی سالوں میں یہ کیفیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس بات میں کوئی حکم الٰہی نہ ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت اختیار کرتے خصوصاً جس بات میں بت پرستوں کی مخالفت ہو۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور اسلام ایک قوت بن کر آشکارا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی مخالفت کو پسند کرنے لگے جیسا کہ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الفرق، حدیث:۵۹۱۷۔)،میں تفصیلاً مذکور ہے۔ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کی موافقت پسند فرمائی اور فرمایا: ’’ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار تو ہم تم سے زیادہ ہیں۔ ‘‘ پھر بعد میں ان کی مخالفت کو پسند فرمایا اور عاشوراء کے ساتھ ایک دن مزید ملانا پسند کیا۔
عاشوراء کے روزے بارے ایک تنبیہ!
عاشوراء کے روزہ کی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت سے کوئی مناسبت نہیں ہے، اہل تشیع کے بعض ذاکرین و واعظین اور ان کی دیکھا دیکھی بریلوی مکتبۂ فکر کے اصحاب عاشوراء کے روزے کو شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو بالکل نازیبا ہے کیوں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت سے تقریباً پچاس سال قبل اسلامی احکام مکمل ہوچکے تھے اور ان احکام میں عاشوراء کا روزہ بھی ہے۔ فافهم إن کنت من العاقلین۔