كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کے دن روزے کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ ‘‘
تشریح :
مسند أحمد بن حنبل اور سنن ترمذي میں ان دو دِنوں کے روزہ کی وجہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ان دو دِنوں میں بنو آدم کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ہر ایک کو معاف کردیا جاتا ہے مگر اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں اور آپس میں دو ناراضگی رکھنے والوں کو معاف نہیں کیا جاتا۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کرلیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب النهي عن الشحناء، حدیث:۲۵۶۵۔)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت ہوتی کہ میرے اعمال جب پیش ہوں تو ان میں روزہ بھی ہو۔ (سنن ترمذي، کتاب الصوم، باب ما جاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، حدیث:۷۴۷ وقال: حسن غریب۔ دیکھئے حدیث:۳۰۹۔)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِهٖ وأصحابه ٖ أَجْمَعِیْنَ۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن الترمذي، کتاب الصوم، باب في صوم الاثنین والخمیس (۳؍ ۷۴۵) سنن النسائي، کتاب الصیام، باب التقدم قبل شهر رمضان (۴؍ ۲۳۵۹، ۲۳۶۰) سنن ابن ماجة، کتاب الصیام، باب الصیام یوم الاثنین والخمیس (۱؍ ۱۷۳۹) صحیح ابن خزیمة (۲۱۱۶) مسند أحمد بن حنبل (۶؍ ۱۰۶)۔
مسند أحمد بن حنبل اور سنن ترمذي میں ان دو دِنوں کے روزہ کی وجہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ان دو دِنوں میں بنو آدم کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ہر ایک کو معاف کردیا جاتا ہے مگر اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں اور آپس میں دو ناراضگی رکھنے والوں کو معاف نہیں کیا جاتا۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کرلیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب النهي عن الشحناء، حدیث:۲۵۶۵۔)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت ہوتی کہ میرے اعمال جب پیش ہوں تو ان میں روزہ بھی ہو۔ (سنن ترمذي، کتاب الصوم، باب ما جاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، حدیث:۷۴۷ وقال: حسن غریب۔ دیکھئے حدیث:۳۰۹۔)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِهٖ وأصحابه ٖ أَجْمَعِیْنَ۔