كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ؟ قَالَتْ: ((نَعَمْ)) . قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ كَانَ يَصُومُ؟ قَالَتْ: ((كَانَ لَا يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ صَامَ)) قَالَ أَبُو عِيسَى: " يَزِيدُ الرِّشْكُ هُوَ يَزِيدُ الضُّبَعِيُّ الْبَصْرِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَةِ، وَهُوَ يَزِيدُ الْقَاسِمُ وَيُقَالُ: الْقَسَّامُ، وَالرِّشْكُ بِلُغَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ هُوَ الْقَسَّامُ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ یزید الرشک کہتے ہیں میں نے معاذہ سے سنا وہ فرماتی تھیں میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھتے تھے؟ اُنھوں نے فرمایا: ہاں ! میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کن دنوں میں یہ روزے رکھتے تھے؟ فرمایا: کسی خاص دن کی پرواہ نہیں کرتے تھے، بلکہ کسی بھی دن روزہ رکھ لیتے تھے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یزید الرشک سے یزید ضبعی مراد ہے۔ اور وہ ثقہ ہیں ان سے شعبہ، عبدالوارث بن سعید، حماد بن زید، اسماعیل بن ابراہیم اور دیگر بہت سے ائمہ نے روایت لی ہے۔ یزید القاسم اور یزید القسام سے مراد بھی یہی ہیں، رشک اہل بصرہ کی لغت میں زیادہ تقسیم کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ‘‘
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مہینے سے تین روزے رکھنے والا صائم کچھ دنوں کو ہمیشہ کے لیے متعین نہ کرلے بلکہ کبھی ابتداء شہر (مہینے) میں رکھے، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے میں اُمت پر شفقت و رحمت بھی مقصود تھی کہ اُمت پر یہ روزے اکتاہٹ اور بوجھ کا باعث نہ ہوں۔
تخریج :
صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة أیام من کل شهر وصوم یوم عرفة وعاشوره والاثنین والخمیس (۲؍ ۱۹۴، برقم: ۸۱۸)۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مہینے سے تین روزے رکھنے والا صائم کچھ دنوں کو ہمیشہ کے لیے متعین نہ کرلے بلکہ کبھی ابتداء شہر (مہینے) میں رکھے، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے میں اُمت پر شفقت و رحمت بھی مقصود تھی کہ اُمت پر یہ روزے اکتاہٹ اور بوجھ کا باعث نہ ہوں۔