شمائل ترمذی - حدیث 30

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسْدِلُ شَعْرَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرِقُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يُسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ، ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 30

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کا بیان ’’ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کولٹکایا کرتے تھے، اور مشرکین اپنے بالوں میں مانگ نکالتے تھے، جبکہ اہل کتاب اپنے سر کے بالوں کو لٹکاتے، اس لیے کہ جس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حکم نہ دیا جاتا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سر میں مانگ نکالنی شروع کر دی۔ ‘‘
تشریح : امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ بالوں کی مانگ نکالنا سنت ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدل کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کیا، تو یہ رجوع وحی سے ہی ہوا ہوگا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز کے متعلق کوئی حکم نہ ہواہوتا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اہل کتاب کی موافقت کا مطلب یہ ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں موافقت کرتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ بھی نازل نہ ہوا ہوتا، اور یہ شروع اسلام میں تھا، تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام سے مالوف کریں۔ نیز اس لیے کہ وہ بتوں کی عبادت کی مخالفت کرتے تھے۔ بعض اہل اصول نے اس سے یہ دلیل لی ہے کہ جس امر کے متعلق ہمارے لیے کوئی حکم نازل نہیں ہوا، اس میں ہمارے لیے سابقہ شریعت حجت اور دلیل ہے۔ جبکہ بعض دوسرے اہل اصول نے کہا ہے کہ یہاں سے اس کے برعکس یہ ثبوت ملتا ہے کہ سابقہ شریعت ہمارے لیے مشروع نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں لفظ ’’ یُحِبُّ ‘‘ کا استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مختار تھے، اگر وہ ہمارے لیے بھی مشروع ہوتا تو اس کی اتباع حتمی ہوتی۔ والله اعلم بالصواب۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب المناقب (۳۵۵۸)، صحیح مسلم، کتاب الفضائل (۱۸۱۷، ۱۸۱۸)۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ بالوں کی مانگ نکالنا سنت ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدل کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کیا، تو یہ رجوع وحی سے ہی ہوا ہوگا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز کے متعلق کوئی حکم نہ ہواہوتا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اہل کتاب کی موافقت کا مطلب یہ ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں موافقت کرتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ بھی نازل نہ ہوا ہوتا، اور یہ شروع اسلام میں تھا، تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام سے مالوف کریں۔ نیز اس لیے کہ وہ بتوں کی عبادت کی مخالفت کرتے تھے۔ بعض اہل اصول نے اس سے یہ دلیل لی ہے کہ جس امر کے متعلق ہمارے لیے کوئی حکم نازل نہیں ہوا، اس میں ہمارے لیے سابقہ شریعت حجت اور دلیل ہے۔ جبکہ بعض دوسرے اہل اصول نے کہا ہے کہ یہاں سے اس کے برعکس یہ ثبوت ملتا ہے کہ سابقہ شریعت ہمارے لیے مشروع نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں لفظ ’’ یُحِبُّ ‘‘ کا استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مختار تھے، اگر وہ ہمارے لیے بھی مشروع ہوتا تو اس کی اتباع حتمی ہوتی۔ والله اعلم بالصواب۔