كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَطَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنُ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَامٍ وَقَلَّمَا كَانَ يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
’’ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ کے شروع سے تین دنوں کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم ہی جمعہ کے دن کا روزہ آپ نہ رکھتے تھے۔ ‘‘
تشریح :
امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی سنن میں اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ حدیث عبداللہ حسن غریب ہے۔ اہل علم میں سے ایک قوم کے نزدیک جمعہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے ناپسندیدہ امر یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھے۔ نہ تو اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ ہی بعد میں رکھے۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ اس کی ممانعت مروی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ قیام اللیل کے لیے جمعہ کی رات کو باقی راتوں سے خاص نہ کرو، اور نہ ہی جمعے کے دن کو باقی دنوں سے روزے کے لیے خاص کرو۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب کراهة إفراد یوم الجمعة بصوم، حدیث:۱۴۸؍۱۱۴۴۔)
سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو نفل روزہ رکھے تو وہ جمعرات کا رکھے جمعے کا روزہ نہ رکھے کیوں کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کرنے کا دن ہے۔ (مصنف ابن أبي شیبة (۲؍۴۶۰)۔)
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب في صوم یوم الجمعة (۳؍ ۷۳۲) سنن أبي داؤد، کتاب الصوم، باب في صوم الثلاث من کل شهر (۳؍ ۲۴۵۰) دون ذکر الشطر الأخیر۔ سنن النسائي، کتاب الصوم، باب صوم النبي صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ (۴؍ ۲۳۶۷) سنن ابن ماجة، کتاب الصیام، باب في صیام یوم الجمعة (۱؍ ۱۷۲۵) مقتصرًا علی الشطر الأخیر۔ مسند أحمد بن حنبل (۱؍ ۴۰۶)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی سنن میں اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ حدیث عبداللہ حسن غریب ہے۔ اہل علم میں سے ایک قوم کے نزدیک جمعہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے ناپسندیدہ امر یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھے۔ نہ تو اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ ہی بعد میں رکھے۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ اس کی ممانعت مروی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ قیام اللیل کے لیے جمعہ کی رات کو باقی راتوں سے خاص نہ کرو، اور نہ ہی جمعے کے دن کو باقی دنوں سے روزے کے لیے خاص کرو۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب کراهة إفراد یوم الجمعة بصوم، حدیث:۱۴۸؍۱۱۴۴۔)
سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو نفل روزہ رکھے تو وہ جمعرات کا رکھے جمعے کا روزہ نہ رکھے کیوں کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کرنے کا دن ہے۔ (مصنف ابن أبي شیبة (۲؍۴۶۰)۔)