شمائل ترمذی - حدیث 297

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ((مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ)) قَالَ أَبُو عِيسَى: " هَذَا إِسنَادٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا قَالَ: عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَدْ رَوَى الْحَدِيثَ، عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ جَمِيعًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 297

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان ’’ اُمّ المؤمنین سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ شعبان اور رمضان کے علاوہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھتے میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ اسناد صحیح ہے، راوی نے اسی طرح عن ابی سلمۃ عن اُمّ سلمہ کہا ہے۔ یہ حدیث ایک سے زائد لوگوں نے عن ابی سلمۃ عن عائشہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے روایت کی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ابوسلمۃ بن عبدالرحمن نے یہ حدیث عن عائشہ و اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم روایت کی ہو۔ ‘‘
تشریح : اس حدیث میں شعبان کے پورے روزے رکھنے کا ذکر ہے، جب کہ دوسری حدیث میں گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے بھی مکمل روزے نہیں رکھے۔ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ یہاں پر کامل کے معنی اکثر کے ہوں گے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے سارے روزے رکھتے تھے، مگر تھوڑے نہیں رکھتے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۷۶؍۱۱۵۶۔) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دوسری حدیث پہلی کی تفسیر کر رہی ہے اور اسی چیز کا بیان ہے کہ اس جگہ کُلٌّ سے مراد غالب اور اکثر حصہ ہے اور قلیل کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس پر لفظ کامل اور کل بولا گیا ہے۔ والله أعلم۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن الترمذي، کتاب الصوم، باب في وصال شعبان برمضان (۳؍ ۷۳۶) سنن أبي داود، کتاب الصوم، باب فیمن یصل شعبان برمضان (۲؍ ۲۳۳۶)۔ سنن النسائي، کتاب الصوم، باب ذکر حدیث اُمّ سلمة (۴؍ ۲۱۷۴) سنن ابن ماجة، کتاب الصیام، باب ماجاء في وصال شعبان برمضان (۱؍ ۱۶۳۸)۔ اس حدیث میں شعبان کے پورے روزے رکھنے کا ذکر ہے، جب کہ دوسری حدیث میں گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے بھی مکمل روزے نہیں رکھے۔ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ یہاں پر کامل کے معنی اکثر کے ہوں گے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے سارے روزے رکھتے تھے، مگر تھوڑے نہیں رکھتے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۷۶؍۱۱۵۶۔) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دوسری حدیث پہلی کی تفسیر کر رہی ہے اور اسی چیز کا بیان ہے کہ اس جگہ کُلٌّ سے مراد غالب اور اکثر حصہ ہے اور قلیل کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس پر لفظ کامل اور کل بولا گیا ہے۔ والله أعلم۔