شمائل ترمذی - حدیث 294

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: ((كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ)) . قَالَتْ: ((وَمَا صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ إِلَّا رَمَضَانَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 294

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان ’’ عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تو ہم کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے ہی رکھیں گے اور افطار کرتے تو ہم کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار ہی کریں گے اور جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے، رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے نہیں رکھے۔ ‘‘
تشریح : صحیح بخاری شریف میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے حتی کہ کہنے والا کہتا اللہ کی قسم! اب وہ افطار نہیں کریں گے۔ اور افطار کرتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي صلى الله علیه وسلم وإفطاره، حدیث:۱۹۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۱۵۷۔) معلوم ہوا کہ بہتر یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھی روزوں سے خالی نہیں جانا چاہیے اور روزے بھی اس طرح رکھے جائیں کہ طبیعت میں ملال اور اکتاہٹ واقع نہ ہو۔ رمضان اصل میں رمض سے مشتق ہے جس کے معنی سخت گرمی کے ہیں، چوں کہ جب عربوں نے مہینوں کے نام رکھے تو اس مہینے میں سخت گرمی تھی، اسی نسبت سے اس کانام رکھ دیا گیا۔ صاحب القاموس نے کہا ہے کہ جب عربوں نے پرانی زبان سے مہینوں کے نام نقل کیے تو ان کے نام ان زمانوں کے ساتھ رکھے جن میں وہ آتے تھے تو رمضان کا مہینہ سخت گرمی میں آیا تو اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ رمضان کے ساتھ مہینے کا لفظ نہ بھی ہو تب بھی صرف رمضان کہنا درست ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر محققین کا یہی مسلک ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ۔)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان، حدیث:۱۸۹۸۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، حدیث:۱۰۷۹۔)....’’ کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ‘‘
تخریج : صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلی اللّٰه علیه وسلم في غیر رمضان (۲؍ ۱۷۴، برقم: ۸۱) صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب صوم شعبان۔ سنن الترمذي، أبواب الصوم (۳؍ ۱۶۸) سنن النسائي، کتاب الصوم (۴؍ ۲۳۴۸)۔ صحیح بخاری شریف میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے حتی کہ کہنے والا کہتا اللہ کی قسم! اب وہ افطار نہیں کریں گے۔ اور افطار کرتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي صلى الله علیه وسلم وإفطاره، حدیث:۱۹۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبي صلى الله علیه وسلم في غیر رمضان، حدیث:۱۱۵۷۔) معلوم ہوا کہ بہتر یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھی روزوں سے خالی نہیں جانا چاہیے اور روزے بھی اس طرح رکھے جائیں کہ طبیعت میں ملال اور اکتاہٹ واقع نہ ہو۔ رمضان اصل میں رمض سے مشتق ہے جس کے معنی سخت گرمی کے ہیں، چوں کہ جب عربوں نے مہینوں کے نام رکھے تو اس مہینے میں سخت گرمی تھی، اسی نسبت سے اس کانام رکھ دیا گیا۔ صاحب القاموس نے کہا ہے کہ جب عربوں نے پرانی زبان سے مہینوں کے نام نقل کیے تو ان کے نام ان زمانوں کے ساتھ رکھے جن میں وہ آتے تھے تو رمضان کا مہینہ سخت گرمی میں آیا تو اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ رمضان کے ساتھ مہینے کا لفظ نہ بھی ہو تب بھی صرف رمضان کہنا درست ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر محققین کا یہی مسلک ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ۔)) (صحیح بخاري، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان، حدیث:۱۸۹۸۔ صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، حدیث:۱۰۷۹۔)....’’ کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ‘‘