كِتَابُ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي الْبَيْتِ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ فِي بَيْتِي وَالصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ: ((قَدْ تَرَى مَا أَقْرَبَ بَيْتِي مِنَ الْمَسْجِدِ، فَلَأَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ إِلَا أَنْ تَكُونَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً))
کتاب
گھر میں نفلی نماز کا بیان
’’ حرام بن معاویہ اپنے چچا سیّدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نفلی نماز پڑھنے اور مسجد میں نفلی نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا (کہ کہاں افضل ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم دیکھتے ہو کہ میرا گھر مسجد کے کتنا قریب ہے اور مجھے اپنے گھر میں نماز پڑھنا، مسجد میں پڑھنے سے زیادہ پسند ہے مگر فرض نماز کا حکم اور ہے۔ ‘‘
تشریح :
مسجد میں نفل نماز پڑھنے کی بہ نسبت گھر میں پڑھنا زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ مسجد میں ریاء، خودپسندی اور سمعہ کا امکان ہے، نیز گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ برکت پیدا ہوتی ہے، جب کہ فرض کی ادائیگی کے لیے مسجد زیادہ اعلیٰ، بہتر اور اولیٰ ہے، کیوں کہ وہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ اسی طرح نفلی روزہ، نفلی صدقہ وغیرہ میں بھی اخفاء زیادہ بہتر اور مستحب ہے، مگر فرض روزے اور فرض زکوٰۃ میں اظہار بہتر ہے، سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری و مسلم میں مرفوعاً مروی ہے کہ ((أَفْضَلُ الصَّلوٰةِ صلاة الْمَرْءِ فِيْ بَیْتِهِ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَةِ۔))( صحیح بخاري، کتاب الأذان، باب صلاة اللیل، حدیث:۷۳۱۔ صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب استحباب صلاة الناقلة في بیته،حدیث:۷۸۱۔) یعنی ’’ فرض نماز کے علاوہ آدمی کی بہترین نماز گھر میں ہے۔ ‘‘
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ابن ماجة، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب فی التطوع فی البیت (۱؍ ۱۳۷۸)، زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ ’’ اس حدیث کی سند صحیح اور تمام راوی ثقہ ہیں۔ ‘‘ لیکن اس میں علاء بن حارث راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی تقریب میں لکھتے ہیں : ’’ صدوق فقیہ لکن رمي بالقدر فقد اختلط ‘‘ کہ یہ سچا راوی ہے، فقیہ ہے لیکن جب اسے فرقۂ قدریہ میں سے شمار کیا گیا تو مختلط ہوگیا۔ لیکن اس حدیث کا ایک شاہد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح بخاري، کتاب مواقیت الصلوٰۃ ۱؍ ۸۶ میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔
مسجد میں نفل نماز پڑھنے کی بہ نسبت گھر میں پڑھنا زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ مسجد میں ریاء، خودپسندی اور سمعہ کا امکان ہے، نیز گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ برکت پیدا ہوتی ہے، جب کہ فرض کی ادائیگی کے لیے مسجد زیادہ اعلیٰ، بہتر اور اولیٰ ہے، کیوں کہ وہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ اسی طرح نفلی روزہ، نفلی صدقہ وغیرہ میں بھی اخفاء زیادہ بہتر اور مستحب ہے، مگر فرض روزے اور فرض زکوٰۃ میں اظہار بہتر ہے، سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری و مسلم میں مرفوعاً مروی ہے کہ ((أَفْضَلُ الصَّلوٰةِ صلاة الْمَرْءِ فِيْ بَیْتِهِ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَةِ۔))( صحیح بخاري، کتاب الأذان، باب صلاة اللیل، حدیث:۷۳۱۔ صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب استحباب صلاة الناقلة في بیته،حدیث:۷۸۱۔) یعنی ’’ فرض نماز کے علاوہ آدمی کی بہترین نماز گھر میں ہے۔ ‘‘