شمائل ترمذی - حدیث 286

كِتَابُ بَابُ صَلَاةِ الضُّحَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلَّا أُمُّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 286

کتاب نمازِ ضحیٰ (چاشت) کا بیان ’’ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں مجھے سیّدہ اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے بھی یہ خبر نہیں دی کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہو۔ انھوں نے (اُمّ ھانی نے) مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن ان کے گھر آئے تو غسل کیا، پھر آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ فرماتی ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، جتنی ہلکی پھلکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن نماز پڑھی، ہاں رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔ ‘‘
تشریح : ’’ دَخَلَ بَیْتَهَا یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ فَاغْتَسَلَ ‘‘ فتح مکہ کے دن ان کے گھر میں آئے تو غسل کیا۔ میرک شاہ کہتے ہیں اس سے ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں غسل فرمایا، جب کہ مؤطا امام مالک اور صحیح مسلم میں اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے اوپر والی جانب میں غسل فرمارہے تھے۔( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تستر المغتسل بثوب ونحوه، حدیث:۷۱؍۳۳۶۔) ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق ہوگی کہ غسل کا واقعہ مکرر ہوا تھا۔ جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں مجاہد سے، اُنھوں نے اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ غسل کے دوران میں سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے پردہ کر رکھا تھا۔ اور ابومرہ عن اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر رکھا تھا۔( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تستر المغتسل بثوب ونحوه، حدیث:۳۳۶۔) اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے اس گھر میں گئے ہوں جو مکہ کی بالائی جانب میں تھا۔ اس طرح یہ احادیث مستقیم المعنی ہوجاتی ہیں اور ستر کے متعلق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں کسی نے پردہ کیا ہوا اور بعد میں کسی اور نے۔ واللہ أعلم۔ ٭ سیّدہ اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں پڑھی جانے والی نماز کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ فتح کی خوشی میں تھی یا چاشت کی نماز تھی؟ درست بات یہی ہے کہ یہ نمازِ چاشت تھی کیوں کہ راوی کے صریح الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کے نفل ادا کیے۔ ٭ ’’ یہ نماز ہلکی پھلکی پڑھی، مگر رکوع و سجود مکمل کیے۔ ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام، قرأت اور تشہد میں تخفیف کرتے مگر رکوع و سجود مکمل کرتے اور ان میں طمانیت و اعتدال کو اپناتے۔ ٭ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے دو رکعت نمازِ چاشت پڑھی، وہ غافلوں میں سے شمار نہیں ہوگا اور جس نے چار رکعت نمازِ چاشت پڑھی وہ قانتین میں سے شمار ہوگا اور جس نے چھ رکعتیں پڑھیں، اس کو وہ اس دن میں کافی ہوں گی، اور جس نے آٹھ رکعتیں پڑھیں، وہ عابدین میں لکھا جائے گا اور جس نے بارہ رکعتیں پڑھ لیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیا جائے گا۔( المعجم الکبیر للطبراني کما في مجمع الزوائد (۲؍۲۳۷)۔ عن أبي الدرداء رضي الله عنه و إسنادہ ضعیف۔ موسیٰ بن یعقوب زمعی راوی ضعیف ہے۔) یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، مگر اس کے سیّدنا ابوذر اور سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہما کی روایت سے شاہد موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے تقویت مل جاتی ہے۔ والله أعلم۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الصلوٰة، باب الصلوٰة في ثوب واحد (۱؍ ۳۵۷)، وکتاب الجزیة (۶؍۳۱۷۱)، وکتاب الأدب (۱۰؍ ۶۱۵۸)، صحیح مسلم، کتاب الحیض (۱؍ ۷۱، ۷۲، ۲۶۶)، وکتاب صلاة المسافرین، باب استحباب صلاة الضحٰی۔ ’’ دَخَلَ بَیْتَهَا یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ فَاغْتَسَلَ ‘‘ فتح مکہ کے دن ان کے گھر میں آئے تو غسل کیا۔ میرک شاہ کہتے ہیں اس سے ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں غسل فرمایا، جب کہ مؤطا امام مالک اور صحیح مسلم میں اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے اوپر والی جانب میں غسل فرمارہے تھے۔( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تستر المغتسل بثوب ونحوه، حدیث:۷۱؍۳۳۶۔) ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق ہوگی کہ غسل کا واقعہ مکرر ہوا تھا۔ جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں مجاہد سے، اُنھوں نے اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ غسل کے دوران میں سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے پردہ کر رکھا تھا۔ اور ابومرہ عن اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر رکھا تھا۔( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تستر المغتسل بثوب ونحوه، حدیث:۳۳۶۔) اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے اس گھر میں گئے ہوں جو مکہ کی بالائی جانب میں تھا۔ اس طرح یہ احادیث مستقیم المعنی ہوجاتی ہیں اور ستر کے متعلق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں کسی نے پردہ کیا ہوا اور بعد میں کسی اور نے۔ واللہ أعلم۔ ٭ سیّدہ اُمّ ھانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں پڑھی جانے والی نماز کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ فتح کی خوشی میں تھی یا چاشت کی نماز تھی؟ درست بات یہی ہے کہ یہ نمازِ چاشت تھی کیوں کہ راوی کے صریح الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کے نفل ادا کیے۔ ٭ ’’ یہ نماز ہلکی پھلکی پڑھی، مگر رکوع و سجود مکمل کیے۔ ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام، قرأت اور تشہد میں تخفیف کرتے مگر رکوع و سجود مکمل کرتے اور ان میں طمانیت و اعتدال کو اپناتے۔ ٭ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے دو رکعت نمازِ چاشت پڑھی، وہ غافلوں میں سے شمار نہیں ہوگا اور جس نے چار رکعت نمازِ چاشت پڑھی وہ قانتین میں سے شمار ہوگا اور جس نے چھ رکعتیں پڑھیں، اس کو وہ اس دن میں کافی ہوں گی، اور جس نے آٹھ رکعتیں پڑھیں، وہ عابدین میں لکھا جائے گا اور جس نے بارہ رکعتیں پڑھ لیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیا جائے گا۔( المعجم الکبیر للطبراني کما في مجمع الزوائد (۲؍۲۳۷)۔ عن أبي الدرداء رضي الله عنه و إسنادہ ضعیف۔ موسیٰ بن یعقوب زمعی راوی ضعیف ہے۔) یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، مگر اس کے سیّدنا ابوذر اور سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہما کی روایت سے شاہد موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے تقویت مل جاتی ہے۔ والله أعلم۔