كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ يَقُولُ: سَأَلْنَا عَلِيًّا، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَ ذَلِكَ قَالَ: فَقُلْنَا: مِنْ أَطَاقَ ذَلِكَ مِنَّا صَلَّى، فَقَالَ: ((كَانَ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَيُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان
’’ عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں ہم نے سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دن کے وقت کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے۔ ہم نے کہا جو ہم میں سے اس کی طاقت رکھے گا، پڑھ لے گا (آپ بتائیں تو سہی) چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورج مشرق میں جب ایسے ہوتا جیسا کہ عصر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت نماز ادا فرماتے، اور جب سورج مشرق میں ایسے ہوتا جیسا کہ ظہر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے تو چار رکعتیں پڑھتے، اسی طرح عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، ہر دو رکعت میں مقرب فرشتوں، نبیوں ان کے پیروکار ایمانداروں اور عام مسلمانوں پر سلام سے فصل و فرق کرتے۔ ‘‘
تشریح :
نمازِ چاشت اور اوابین کا ذکر:
اس حدیث میں نماز چاشت اور نماز اوابین کا تذکرہ بھی ہے۔ نمازِ چاشت کا وقت وہ ہے جب سورج ابھی طلوع ہوا ہو اور اس وقت اس کا رنگ غروب ہونے والے سورج کی طرح ہوجاتا ہے۔
حدیث الباب کا دوسرا ٹکڑا ’’ صلاة الاوابین ‘‘ کا بیان ہے، جس کے متعلق صحیح مسلم میں ہے کہ ((صلاة الْأَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔))( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب صلاة الأوابین حین ترمض الفصال، حدیث:۷۴۸۔) ....یعنی صلاة الاوابین کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب اُونٹنی کے بچے کے پاؤں سخت دھوپ میں جھلسنے لگیں۔
ظہر سے قبل چار رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا:
یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ صحیح مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعتیں گھر میں پڑھتے تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل کی چار رکعتیں کبھی نہ چھوڑتے۔ اس ضمن میں سیّدنا ابن عمر اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نمازِ ظہر سے قبل دو رکعت پڑھنا بھی مذکور ہے تو حدیث الباب اور ان روایات میں کوئی تعارض نہیں کیوں کہ ثقہ راوی کی زیادت قبول ہوتی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چار رکعتوں والی روایت کو گھر پر اور دو رکعت والی روایت کو مسجد پر محمول کیا جائے۔ جیسا کہ مسند أحمد بن حنبل اور سنن ابی داؤد میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے چار رکعت پڑھ کر نکلتے۔ اس لیے ان چار رکعت کو سنت ظہر اور دو کو تحیۃ المسجد پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔
عصر سے قبل چار رکعت پڑھنا:
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے قبل بھی چار رکعت پڑھتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ چار رکعت مستحب ہے، سنت راتبہ اور مؤکدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: ((رَحِمَ اللّٰهُ اِمْرَأً صَلَّی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا۔)) کہ ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو نماز عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے۔ ‘‘
باب ماجاء في عبادة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم مکمل ہوا۔
والحمدلله علی ذالك
تخریج :
یہ حدیث حسن ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الصلوٰة، باب کیف کان تطوع النبي صلى الله عليه وسلم بالنهار: (۲؍۴۲۴، ۴۲۹، ۵۹۸، ۵۹۹)، سنن النسائي، کتاب الامامة: (۲؍ ۱۲۰)، سنن ابن ماجة، کتاب امامة الصلاة (۱؍ ۱۱۶۱)، مسند أحمد بن حنبل: (۱؍ ۸۵، ۱۴۳، ۱۴۷، ۱۶۰)، زوائد المسند لعبد اللّٰه بن أحمد (۱؍ ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۶) صحیح ابن خزیمة (۱؍ ۱۲)۔
نمازِ چاشت اور اوابین کا ذکر:
اس حدیث میں نماز چاشت اور نماز اوابین کا تذکرہ بھی ہے۔ نمازِ چاشت کا وقت وہ ہے جب سورج ابھی طلوع ہوا ہو اور اس وقت اس کا رنگ غروب ہونے والے سورج کی طرح ہوجاتا ہے۔
حدیث الباب کا دوسرا ٹکڑا ’’ صلاة الاوابین ‘‘ کا بیان ہے، جس کے متعلق صحیح مسلم میں ہے کہ ((صلاة الْأَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔))( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب صلاة الأوابین حین ترمض الفصال، حدیث:۷۴۸۔) ....یعنی صلاة الاوابین کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب اُونٹنی کے بچے کے پاؤں سخت دھوپ میں جھلسنے لگیں۔
ظہر سے قبل چار رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا:
یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ صحیح مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعتیں گھر میں پڑھتے تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل کی چار رکعتیں کبھی نہ چھوڑتے۔ اس ضمن میں سیّدنا ابن عمر اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نمازِ ظہر سے قبل دو رکعت پڑھنا بھی مذکور ہے تو حدیث الباب اور ان روایات میں کوئی تعارض نہیں کیوں کہ ثقہ راوی کی زیادت قبول ہوتی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چار رکعتوں والی روایت کو گھر پر اور دو رکعت والی روایت کو مسجد پر محمول کیا جائے۔ جیسا کہ مسند أحمد بن حنبل اور سنن ابی داؤد میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے چار رکعت پڑھ کر نکلتے۔ اس لیے ان چار رکعت کو سنت ظہر اور دو کو تحیۃ المسجد پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔
عصر سے قبل چار رکعت پڑھنا:
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے قبل بھی چار رکعت پڑھتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ چار رکعت مستحب ہے، سنت راتبہ اور مؤکدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: ((رَحِمَ اللّٰهُ اِمْرَأً صَلَّی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا۔)) کہ ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو نماز عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے۔ ‘‘
باب ماجاء في عبادة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم مکمل ہوا۔
والحمدلله علی ذالك